بچہ دانی کے پھٹ جانے کے خوف سے آپریشن کروا کر بچہ دانی نکلوانا

Darul Ifta mix

بچہ دانی کے پھٹ جانے کے خوف سے آپریشن کروا کر بچہ دانی نکلوانا

سوال

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میری شادی کو آٹھواں سال ہے اور میری بیوی کی عمر 32 سال ہے، میرے ما شاء اللہ تین بچے ہیں، چوتھا عنقریب متوقع ہے، مسئلہ یہ ہے کہ میرے تینوں بچے آپریشن سے ہوئے ہیں، چوتھے کے لیے بھی ڈاکٹر نے آپریشن بتایا ہے، اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اگلی دفعہ Pregnancy ہونے کی صورت میں تھیلا پھٹنے کا خطرہ ہے، کیوں کہ پہلے ہی 3 آپریشنز ہوچکے ہیں، ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق اب میری بیوی کو بچے بند کرالینے چاہئیں ،جس کے لیے انہوں نے BTL سرجری کی رائے دی ہے، جس سے ہمیشہ کے لیے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کو ختم کردیا جاتا ہے، ڈاکٹر کے مطابق بار بار Uterus کٹنے اور سلنے سے اس کے پھٹنے کے آثار بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ماں کی جان کو خطرہ ہوتا ہے۔
برائے مہربانی اس مسئلے میں رہنمائی فرمائیں کہ ایسی صورت میں BTL کا آپریشن کرانا شریعت کی رو سے جائز ہے یا نہیں؟ اس صورت حال میں کیا طریقہ اپنانا چاہیے؟
واضح رہے کہ BTL سرجری میں Fallopian Tubes کو Remove کردیا جاتا ہے یا Clips کے ذریعے Block کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے Fertilization کا عمل رک جاتا ہے، یہ حمل روکنے کا Permanent طریقہ ہے جس کا Reversal تقریباً ناممکن ہے۔

جواب

مرد وعورت میں سے کسی ایک کا کوئی ایسی تدبیر اختیار کرنا کہ جس سے قوتِ تولید (بچہ ہونے کی قوت) ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے اور حمل قرار پانے کی صورت باقی نہ رہے، مثلاً: مرد نس بندی کرالے، یا عورت آپریشن کرالے،تو مذکورہ عمل یعنی نس بندی اور عورت کا آپریشن کرالینا ناجائز اور حرام ہے، البتہ اگراس امر کی شدید ضرورت ہو اور آئندہ استقرارِ حمل سے عورت کی جان کو خطرہ لاحق ہونے کا ظنِ غالب (یقینی گمان)ہو اور عارضی مانعِ حمل تدابیر اختیار کرنا بھی مضر ہوں ،تو عورت کے لیے یہ گنجائش ہے کہ وہ اپنی تولیدی صلاحیت کو ختم کردے، البتہ اگر موانعِ حمل طریقے مضر نہ ہوں تو اسی پر اکتفاء کیا جائے۔
صورت مسئولہ میں اگر مسلمان ماہر ڈاکٹرز یہ فیصلہ کرلیں کہ آئندہ حمل ٹھہرنے کی صورت میں عورت کی جان کو خطرہ ہے، نیز موانعِ حمل طریقے اختیار کرنا بھی اس عورت کے لیے مضر ہوں، تو اس صورت میں مذکورہ عورت کے لیے گنجائش ہے کہ وہ آپریشن کے ذریعے اپنی تولیدی صلاحیت ختم کردے، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ان کے لیے آپریشن کی گنجائش نہیں۔
لما في التنزیل:
’’ولآمرنہم فلیغیرن خلق اللہ‘‘.(سورۃ النساء، الآیۃ: ١١٩)
وفي روح المعاني:
’’(ولآمرنہم فلیغیرن) ممتثلین بہ بلا ریث خلق اللہ عن نہجہ صورۃ أو صفۃ، ویندرج فیہ ما فعل من فقء عین فحل الإبل إذا طال مکثہ حتی بلغ نتاج نتاجہ، ویقال لہ الحامي وخصاء العبید‘‘.(سورۃ النساء، الآیۃ: ١١٩: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وفي التنویر مع الرد:
’’وقالوا یباح إسقاط الولد قبل أربعۃ أشہر ولو بلا إذن الزوج ‘‘.
’’وفي الرد تحتہ: أخذ في النہر من ہذا ومما قدمہ الشارح عن الخانیۃ والکمال أنہ یجوز لہا سد فم رحمہا کما تفعلہ النساء مخالفا لما بحثہ في البحر من أنہ ینبغي أن یکون حراما بغیر إذن الزوج قیاسا علي عزلہ بغیر إذنہا. قلت: لکن في البزازیۃ أن لہ منع امرأتہ عن العزل اہـ. نعم النظر إلی فساد الزمان یفید الجواز من الجانبین، فما في البحر مبني علی ما ہو أصل المذہب، وما في النہر علی ما قالہ المشایخ واللہ الموفق‘‘.(کتاب النکاح، مطلب في حکم إسقاط الحمل: ٤/ ٣٣٥: رشیدیۃ).
وفي الأشباہ:
’’الضرورات تبیح المحظورات، ومن ثم جاز أکل المیۃ عند المخمصۃ، وإساغۃ اللقمۃ بالخمر، والتلفظ بکلمۃ الکفر للإکراہ، وکذا إتلاف المال، وأخذ مال الممتنع الأداء من الدین بغیر إذنہ ودفع الصائل، ولو أدی إلی قتلہ‘‘.(القاعدۃ الخامسۃ: الضرر یزال، ٩٤: دار الفکربیروت، لبنان).فقط.واللہ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:173/66