اپنی اولاد کسی کو دینے کے بعد واپس لینا

Darul Ifta mix

اپنی اولاد کسی کو دینے کے بعد واپس لینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عرض یہ ہے کہ میں نے اپنی خالہ کو دس سال پہلے اپنی بیٹی پیدائش کے بعد ہی دے دی تھی، کیوں کہ میری خالہ بے اولاد ہیں لیکن میری بیٹی لینے سے پہلے میری خالہ نے اپنے بھائی (میرے ماموں) کا بیٹا گود لیا ہوا تھا اور اسے 12 سال کی عمر میں ماموں نے واپس لے لیا تھا، اسی وجہ سے میں نے اپنی بیٹی خالہ کو دی، لیکن وہی بیٹا آج تقریباً 10 سال بعد عمر تقریباً 22 سال ہوچکی ہے اور وہ خالہ کے پاس واپس آگیا ہے، میری بیٹی کی عمر10 سال ہے اور بلوغت کے معاملات قریب ہیں ،تو اب اس حالت میں میرے لیے کیا حکم ہے؟اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میری بیٹی کے اسکول کے کاغذات میں اس کی ولدیت تبدیل کروادی گئی ہے اب وہ میرے خالو کے نام سے منسلک ہے، اس بناء پر مجھے مفتیان کرام کی رہنمائی چاہئے کہ میں اپنی بیٹی قرآن حدیث کی روشنی میں واپس لینے کا حق دار ہوں یا نہیں؟ اس لیے مجھے مہربانی فرماکر تحریری فتویٰ دے دیا جائے تاکہ میں اپنے اس مسئلے کو بآسانی حل کرسکوں۔

جواب

اگر سوال میں ذکر کردہ صورت حال حقیقت پر مبنی ہے تو آپ کا اپنی بیٹی کو واپس لینا جائز ہے، نیز کسی بھی شخص کو غیر والد کی طرف منسوب کرنا گناہ ہے، لہذا صورت مذکورہ میں آپ کی بیٹی کا غیر والد کی طرف انتساب کیا جانا، ناجائز ہے، لہذا بچی کے تمام کاغذات وغیرہ سے غیر والد کی ولدیت ہٹا کر اصل والد کی طرف منسوب کیا جائے۔
لما في روح المعاني:
’’˒˒ادعوہم لآبائہم ھو أقسط عند اللہ˓˓، ویعلم من الآیۃ: أنہ لا یجوز انتساب الشخص إلی غیر أبیہ، وعدّ ذلک بعضہم من الکبائر‘‘.(سورۃ الأحزاب، ٢١/ ١٨٩- ١٩٤: مؤسسۃ الرسالۃ)

وفي صحیح البخاري:
’’عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ˒˒لا ترغبوا عن آبائکم، فمن رغب عن أبیہ فہو کفر˓˓.(کتاب الفرائض، باب من ادعی إلی غیر أبیہ، رقم الحدیث: ٦٧٦٨، ص: ١١٦٧: دارالسلام).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 173/329