آن لائن (FORSAGE) فارسیج نامی کمپنی کے ساتھ کاروبار کرنے کا حکم

Darul Ifta mix

آن لائن (FORSAGE) فارسیج نامی کمپنی کے ساتھ کاروبار کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ(FORSAGE)نام کی ایک کمپنی ہے جو بلاک چین سسٹم پر ورک کرتی ہے،اس  میں )SALTنمک)وغیرہ کا بیچنا خریدنا ہوتا ہے ،  ہمارے ایک عزیز سے کسی نے کہا کہ اس میں پیسا لگاؤ،فائدہ ہوگا ، یعنی اس میں پیسہ لگانا پڑتا ہے اور پھر فائدہ ہونا شروع ہوجاتا ہے ، ڈالر کی خرید و فروخت ہو تی ہے ، اور اس میں جو شخص کسی اور کو جوائن کروائے گا تو اس لگوانے والے شخص کو وہ نفع بھی ملے گا جو جوائن ہونے والا خود کمائے گا ، کیا اس میں پیسہ لگانا ،کسی اور  کو جوائن کروانا اور نفع کمانا جائز ہے؟

تفصیلات:                     

          فارسیج(FORSAGE)31جنوری 2020ء سے چل رہی ہے ، ایکDecentralized سسٹم ہے ، جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا ، جب تک انٹرنیٹ کا نظام چلتا رہے گا ،تب تک یہ بھی چلتا رہے گا ، 200سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا یہ نظام ایک روسی منصوبہ ہے ، خالصتا ایک بلاک چین ٹیکنا لوجی ہے ، مسٹر لاڈو نے اس سسٹم کو بنا کرBlock Chain Technology سے منسلک کردیا ہے ، اورپھر BusdجوBinance  ایکسچینج کا کوائن ، مسٹر لاڈو نے Binanceکے ساتھ Agreement(معاہدہ) کرلیا اور اپنی ٹیم بھی بنائی اورBinanceسے اپنے شئیر وصول کرتا ہے  ، مسٹرلاڈو کا تعلق روس سے ہے ، اس سسٹم میں یہ ہے کہ اس کی Earning(آمدنی)کسی Owner(مالک)کو نہیں جاتی ، جتنی بھی انویسٹمنٹ لوگ کرتے ہیں وہ ان میں خود ساختہ نظام کے تحت تقسیم ہوجاتی ہے ،گورنمنٹ اس نظام کو ختم نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی کنٹرول کرسکتی ہے، یہ ایک بلاک چین ٹیکنالوجی پر بنایا گیا ہے جس کو روکنا ممکن نہیں ،اس میں بندہ Networkingکرکے اپنی ٹیم بناتا ہے ، اس سسٹم میں یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص کسی نیو ممبر کو اس ٹیم میں جوائن کرواتا ہے تو جوائن کروانے والے کو بونس یا پروفٹ ملتا ہے اور اس کے ساتھ بندہ کے Uplinnerکی Workingسے بھی پروفٹ ملتا رہتا ہے ، جو بندہ کے Trust Walletمیں آجاتاہے ، بندہ کو Withdrawedلگانے کی بھی ضرورت نہیں، جو بندہ کسی کو بھی سینڈ کرکے اس کی رقم Jazz Cash,EasypaisaاورBank  کے ذریعہ وصول کر سکتا ہے اور کسی بھیUplinnerیاSenior ممبر کے محتاج نہیں ہوتے ۔ Trust WalletایکApp کا نام ہے ،Forsageکے ذریعہ کمائی جانی والی رقم اس ایپ میں آجاتی ہے ۔

جواب 

سوال میں ذکر کردہ‘‘ فارسیج کمپنی ’کے طریقہ کار پر غور کیا گیا ،مسلسل غور کرنے کے بعد جو شرعی حکم ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آج کل اس نوعیت کا کاروبار کرنے والی کئی کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں جو آگے ممبر بنا کر اس پر کمیشن دینے کی پیشکش کرتی ہیں،لوگ کمیشن کی لالچ میں آکر اس کو جوائن کرلیتے ہیں،‘‘فارسیج’’اور اس جیسی دیگر کمپنیوں کا اصل مقصد اپنی مصنوعات فروخت کرنا نہیں ،  ورنہ اس کے لیے ممبر بننا شرط نہ ہوتا  ،اور نہ اس میں شامل ہونے والے ممبروں کا اصل مقصد کمپنی کی مصنوعات خریدنی ہوتی ہیں،بلکہ کمپنی کا اصل مقصد ممبروں کے ذریعے اپنی کمپنی کی زیادہ سے زیادہ تشہیر اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرنی ہوتی ہے اور ممبروں کا اصل مقصد زیادہ سے زیادہ کمیشن حاصل کرنا ہوتا ہے۔

لہٰذا شریعت مطہرہ کی رو سے مذکورہ کمپنی کی کاروباری شکل میں کئی خرابیاں  ہیں،جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ سوال میں مذکورہ ‘‘فارسیج’’ملٹی لیول مارکیٹنگ نظام کے تحت کام کرتی ہے، اور ملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام میں شرعی اعتبار سے مختلف مفاسد اور خرابیاں پائی جاتی ہیں، مثلاً غرر،دھوکہ دہی وغیرہ،اس طریقہ کار میں کمپنی کی مصنوعات کھلی مارکیٹ میں فروخت نہیں ہوتیں،بلکہ پہلے صرف ممبران کو مصنوعات دی جاتی ہیں، ساتھ ہی کمپنی کی طرف سے اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ آپ مزید ممبر بنائیں اور کمپنی کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کریں، اس پر کمپنی آپ کو کمیشن/منافع دے گی،نتیجتاً  ایسی کمپنیوں  کا مقصد مصنوعات پیچنا نہیں ہوتا، بلکہ کمیشن اور منافع کا لالچ دے کر لوگوں کو کمپنی کا ممبر بنانا ہوتا ہے، اور ایک تصوراتی اور غیر حقیقی منافع کا وعدہ کر کے لوگوں کو کمپنی میں شامل کرلیا جاتا ہے۔

۲  ۔ اس کمپنی کو جوائن کرنے کے ساتھ ممبر کو نفع ملنا شروع ہوتاہے، جبکہ نہ ممبر کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون سا عقد طے ہوا ہے ، اور نہ عقود شرعیہ میں سے کسی عقد کی تعریف اس پر صادق آتی ہے ، لہذا یہ ایک عقد مجہول کے عوض نفع ملتا ہے ، جوکہ جائز نہیں ۔ 

۳۔ملٹی لیول مارکیٹنگ پر چلنے والی کمپنیوں میں سے کسی جائز کام کرنے والی کمپنی میں بلاواسطہ کسی کو ممبر بنانے میں ممبر کی محنت کا دخل ہوتا ہے جس کی اجرت لینا جائز ہے، لیکن بغیر محنت ومشقت کے بالواسطہ بننے والے ممبروں اور ان کی خرید وفروخت کی وجہ سے ملنے والی اجرت لینا جائز نہیں۔

لہذاملٹی لیول مارکیٹنگ کے نظام پر چلنے والی کمپنی کا ممبر بن کر ممبرسازی کرنا اور مختلف راستوں سے مالی فوائد حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں۔

اس لیے مذکورہ ‘‘ فارسیج’’کمپنی سے کسی قسم کا معاملہ کرنا یا اس کا ممبر بننا جائز نہیں اور اس کے ساتھ کام کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

و في" تفسير ابن كثير":

﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾. (المائدة:90).

قال ابن كثير رحمة الله عليه في تفسير هذہ الاية :يقول تَعَالَى: نَاهِيًا عِبَادَهُ الْمُؤْمِنِينَ عَنْ تَعَاطِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَهُوَ الْقِمَارُ.

(تفسير ابن كثير:2/654،547،ط:دارالكتاب العربي).

وفي "روح المعاني":

"وقال العلامة الآ لوسي رحمة الله عليه: ومن مفاسد الميسر أن فيه أكل الأموال بالباطل وأنه يدعو كثيرا من المقامرين إلى السرقة وتلف النفس وإضاعة العيال وإرتكاب الأمور القبيحة والرذائل الشنيعة والعداوة الكامنة والظاهرة وهذا أمر مشاهد لا ينكره إلا من أعماه الله تعالى وأصمه".(2/ 115،114، دار احياء التراث العربي).

 وفي "ردالمحتار":

"تتمة:قال في التاترخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم.  وفي الحاوي سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال أرجو أنه لا بأس به، وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".(كتاب الاجارة،باب ضمان اللأجير، (مطلب في أجرة الدّلاّل،9/107،ط:رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 174/158