اللہ تعالی کو ”تُو” کہہ کر پکارنا

Darul Ifta mix

اللہ تعالیٰ کو ’’تُو‘‘کہہ کر پکارنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم اللہ تعالی کو ’’تُو‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں،اگر کسی انسان کو تو کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو اسے برا لگتا ہے ،تو کیا اللہ تعالی کو تو کہہ کر مخاطب کرنا کیسا ہے؟

جواب

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں کئی مقامات پر اللہ تعالی کے لیے لفظ أنت کا استعمال ہوا ہے اور أنت کا اردو ترجمہ تو اور آپ کے آتے ہیں، ہمارے عرف ومعاشرے میں لوگوں کے لیے تو لفظ کا استعمال کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے، جب کہ اسی معاشرے میں اللہ رب العزت کے لیے تو لفظ کا استعمال کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا، لہذا صورت مسئولہ میں اللہ رب العزت کو تو کہہ کر پکارنے میں کوئی بے ادبی تو نہیں، البتہ ان جیسے الفظ سے پکارنا مناسب نہیں، اردو زبان میں ادب والے الفاظ موجود ہیں، جیسے: آپ وغیرہ، بہتر یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال کیا جائے، جن میں ادب ملحوظ ہو۔
لما في التنزیل:
’’ربنا لا تزغ قلوبنا بعد إذ ہدیتنا وہب لنا من لدنک رحمۃ‘‘.(سورۃ آل عمران، رقم الآیۃ:٨)
وفیہ أیضا:
’’وذا النون إذ ذہب مغاضبا فظن أن لن نقدر علیہ فنادی في الظلمات أن لا إلہ إلا أنت سبحنک إني کنت من الظالمین‘‘.(سورۃ الأنبیاء، رقم الآیۃ: ٨٧)
وفي صحیح البخاري:
’’عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم ،سید الاستغفار أن یقول: اللہم أنت ربي لا إلہ إلا أنت خلقتني وأنا عبدک، وأنا علی عہدک ووعدک ما استطعت أعوذ بک من شر ما صنعت، أبوء لک بنعمتک علي، وأبوء بذنبي فاغفر لي إنہ لا یغفر الذنوب إلا أنت‘‘.(کتاب الدعوات، باب فضل الاستغفار، رقم الحدیث: ٦٣٠٦: دار السلام)
وفي أصول الإفتاء وآدابہ:
’’وکذلک یعتبر العرف اللفظي في کلام الناس، فإن کان عرفا عاما، یثبت بہ حکم یعمّ البلاد کلہا، وإن کان عرفا خاصا، یقتصر الحکم بہ في المواضع التي جری فیہا ذلک العرف، ولا یثبت بہ حکم عام في جمیع البلاد‘‘.(الفصل السادس، تغییر الحکم بتغیر الزمان، الوجہ الثاني: تغیر الحکم بتغیر العرف،ص: ٢٩٨: معارف القرآن).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:173/289