اعتکاف کی شرعی حیثیت

Darul Ifta

اعتکاف کی شرعی حیثیت

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ اعتکاف کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اعتکاف کے فضائل اور مقاصد کیا ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اعتکاف کی تین شرعی حیثیتیں ہیں:

  • واجب
  • سنت مؤکدہ
  • مستحب

واجب اعتکاف:یہ ہے کہ کوئی شخص نذر مانے خواہ کسی شرط سے معلق کرے یا بغیر شرط کے نذر مانے ،جیسے کوئی یہ کہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے لیے تین دن کا اعتکاف کروں گا، یا شرط کے ساتھ معلق کر کے یہ کہے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا، تو میں اللہ تعالیٰ کے لیے دو دن کا اعتکاف کروں گا، اس طرح نذر ماننے سے اعتکاف واجب ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ (نذر ماننے والے پر) روزہ بھی واجب ہوجاتا ہے۔
مسنون اعتکاف:رمضان شریف کے آخری عشرے کا اعتکاف سنت مؤکدہ ہے، یہ رمضان کی بیس تاریخ کی شام کو سورج غروب ہونے کے وقت سے شروع ہوجاتا ہے اور رمضان کے اختتام تک(خواہ مہینہ انتیس کا ہو یا تیس کا) ہوتا ہے، یہ اعتکاف سنت علی الکفایہ ہے، یعنی پورے محلے میں سے کسی ایک فرد کے کرلینے سے سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا۔
مستحب اعتکاف:اس کی کوئی مقدار مقرر نہیں، بلکہ تھوڑی دیر بھی بنیت اعتکاف مسجد میں ٹھہرنے سے ہوجائے گا اور نہ ہی اس کے لیے روزہ شرط ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے عشرہ اخیر کا اعتکاف ہمیشہ بڑی پابندی سے فرمایا ہے ،علامہ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’تعجب ہے لوگوں پر کہ انہوں نے اعتکاف کو چھوڑ دیا ہے، جب کہ نبی علیہ السلام کبھی ایک کام کرتے اور پھر اس کو چھوڑ دیتے، لیکن جب سے مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تا وفات اعتکاف نہیں چھوڑا،چنانچہ اعتکاف پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مواظبت سنت ہونے کی دلیل ہے‘‘۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہےکہ:
’’جس بندے نے اللہ کی رضامندی کا طالب ہوتے ہوئے ایک دن اعتکاف کیا ،اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین ایسی خندقوں کے بقدر دوری فرمادیں گے، جن کے درمیان کی مسافت مشرق اور مغرب کے درمیان کی دوری کے برابر ہوگی‘‘۔
اعتکاف کا مقصد اللہ تعالیٰ کے گھر یعنی مسجد میں دنیا سے بے رغبت ہو کر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو طلب کرنا اور اس کی مغفرت کی امید کرنا ہے۔
لما في التنویر مع الدر:
’’(وھو) ثلاثۃ أقسام (واجب بالنذر) بلسانہ وبالشروع وبالتعلیق ذکرہ ابن الکمال (وسنۃ مؤکدۃ في العشر الأخیر من رمضان) أي سنۃ کفایۃ......(مستحب في غیرہ من الأزمنۃ) ھو بمعنی غیر المؤکدۃ‘‘.(کتاب الصوم، باب الاعتکاف:۳/۴۹۵،رشیدیۃ).
وفي حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح:
’’ھو لغۃ: اللبث والدوام علی شيء، وھو متعد، فمصدرہ:[العکف]، ولازم ،فمصدرہ:[العکوف]،فالمتعدي بمعنی الحبس والمنع، ومنہ قولہ تعالیٰ:«والھدي معکوفاً». ومنہ الاعتکاف في المسجد؛ لأنہ حبس النفس ومنعھا، واللازم الإقبال علی شيء بطریق المواظبۃ، ومنہ قولہ تعالیٰ: «یعکفون علی أصنام لھم». وشرعاً ’’ھو الإقامۃ بنیتہ‘‘ أي بنیۃ الاعتکاف في مسجد تقام فیہ الجماعۃ بالفعل للصلوات الخمس‘‘.(کتاب الصوم،باب الإعتکاف:۶۹۸،رشیدیۃ).
وفي بدائع الصنائع:
’’أما الأول فالاعتكاف في الأصل سنة وإنما يصير واجبا بأحد أمرين أحدهما قول وهو النذر المطلق بأن يقول لله علي أن أعتكف يوما أو شهرا أو نحو ذلك أو علقه بشرط بأن يقول إن شفى الله مريضي أو إن قدم فلان فلله علي أن أعتكف شهرا أو نحو ذلك.
والثاني فعل وهو الشروع لأن الشروع في التطوع ملزم عندنا كالنذر والدليل على أنه في الأصل سنة مواظبة النبي صلى الله عليه وسلم فإنه روي عن عائشة وأبي هريرة رضي الله عنهما، أنهما قالا: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الأواخر من شهر رمضان حتى توفاه الله تعالى.
وعن الزهري أنه قال: عجبا للناس تركوا الإعتكاف وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل الشيء ويتركه، ولم يترك الإعتكاف منذ دخل المدينة إلى أن مات، ومواظبة النبي صلى الله عليه وسلم عليه دليل كونه سنة في الإصل؛ ولأن الاعتكاف تقرب إلى الله تعالى بمجاورة بيته والإعراض عن الدنيا والإقبال على خدمته لطلب الرحمة وطمع المغفرة‘‘.(کتاب الإعتکاف:۳/۴،۵:دار الکتب العلمیۃ).
وفي الترغیب والترھیب:
’’وعن ابن عباس رضي الله عنهما أنه كان معتكفا في مسجد رسول الله صلى الله عليه و سلم فأتاه رجل فسلم عليه ثم جلس فقال له ابن عباس يا فلان أراك مكتئبا حزينا قال نعم يا ابن عم رسول الله لفلان علي حق ولاء وحرمة صاحب هذا القبر ما أقدر عليه، قال ابن عباس: أفلا أكلمه فيك؟ فقال: إن أحببت، قال: فانتعل ابن عباس ثم خرج من المسجد، فقال له الرجل: أنسيت ما كنت فيه؟ قال: لا، ولكني سمعت صاحب هذا القبر صلى الله عليه و سلم والعهد به قريب، فدمعت عيناه وهو يقول من مشى في حاجة أخيه وبلغ فيها كان خيرا له من اعتكاف عشر سنين ومن اعتكف يوما ابتغاء وجه الله تعالى جعل الله بينه وبين النار ثلاث خنادق أبعد مما بين الخافقين. رواه الطبراني في الأوسط والبيهقي‘‘.(کتاب الصوم، الترغیب في الإعتکاف:۲/۲۷۹،دار الکتب العلمیۃ).فقط.واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:179/17

footer