کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسائل ہذا کے بارے میں کہ میرے والد کا چند ہفتے قبل انتقال ہو گیا ہے جب کہ میری والدہ کا انتقال گزشتہ سال ہو چکا ہے ، والد کے انتقال کے وقت ورثاء میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔
میرے والد نے ترکہ میں مندرجہ ذیل جائیداد چھوڑی ہے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
1.…ایک عدد مکان تین منزلہ جو کہ2016ء میں اپنے بیٹے کے نام کر دیا تھا اور کئی مجالس میں اس کا ذکر بھی کیا کہ میں نے اس مکان کو اپنے بیٹے کے نام کر دیا ہے، اب جو یہ چاہے کرے، یہ مکان اس کا ہے، انتقال تک والد صاحب میرے ساتھ اسی مکان میں رہائش پذیر رہے، اس مکان کا کیا حکم ہے؟
2.… میرے والد نے اس کے علاوہ ایک اور مکان خریدا جو اپنے چاروں پوتوں کے نام کر دیا اور اس کا ذکر بھی مختلف مجالس میں کیا کہ میرے چاروں پوتوں کا ہے، اس کو کوئی بھی فروخت نہیں کرسکتا۔ چاروں پوتے ابھی تک نابالغ ہیں، یہ مکان کرایے پر ہے اور اس کا کرایہ کمیٹی کی صورت میں جمع ہے جو کہ تقریباً دس لاکھ روپے ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ اوراس رقم پر زکوٰة واجب ہے یا نہیں ؟اور اس رقم کا استعمال والدین کے لیے کیسا ہے؟
3.…اسی طرح دو مکان اور ہیں جو کہ ان کے بیٹے کے نام ہیں اور ان کا کرایہ بھی بیٹا ہی وصول کرتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
4.…ایک عدد مکان مزید بھی خرید کر چاروں پوتوں کے نام کیا ہے اس کا کیا حکم ہے؟
5.…ایک عدد باغ بھی والد کی ملکیت میں ہے ، جس کا رقبہ تقریباً پونے دو ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے جن کے بارے میں انہوں نے مختلف مجالس میں ذکر کیا کہ میرے انتقال کے بعد دونوں بہن بھائی اس کو آدھا آدھا تقسیم کرلیں، اس باغ کا حکم کیا ہے؟
6.… والد نے اپنی زندگی میں ہماری والدہ کی میراث میں سے بیٹی کو زرعی زمین دی اور اپنے پاس سے کچھ رقم والدہ کے ترکہ میں ملا کر ایک عدد پلاٹ دلوایا اور اسے بیٹی کے نام کر دیا ہے۔
7.…دو عدد پلاٹ خرید کر ایک پلاٹ اپنی بہو او رایک پلاٹ اپنے بیٹے کی بیٹی(مرحوم کی پوتی) کے نام کر دیا تھا او رمکمل کاغذات بھی حوالہ کر دیے تھے، اس کا حکم کیا ہے؟
والد محترم اپنی زندگی میں مختلف مجالس میں اس بات کا ذکر کرتے رہے کہ جو جائیداد میں جس کے نام کر رہا ہوں وہ اس کا مختار کل ہے۔
براہ کرم ان تمام جائیدادوں کے شرعی احکام قرآن وسنت کی روشنی میں مرحمت فرمائیں۔
واضح رہے کہ جس مکان میں کوئی شخص خود رہ رہا ہو، اس مکان کا ہبہ کرنا اس وقت درست ہو گا، جب ہبہ کرنے والا شخص مکان خالی کرکے تمام تر اختیارات اس شخص کے حوالے کر دے کہ جس کو مکان ہبہ کیا ہے، لہٰذا صور تِ مسئولہ میں والد مرحوم نے اپنی رہائش کا مکان آپ کو ہبہ کیا تھا، ہبہ کرتے وقت اور اس کے بعد بھی آخر عمر تک اسی مکان میں رہائش پذیر رہے، اس لیے یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا، لہٰذا یہ مکان مرحوم کے ترکہ میں شامل ہو کر تمام ورثاء میں بقدر ِ حصص تقسیم ہو گا۔
4،2.… مرحوم نے الگ سے جو مکان اپنے پوتوں کے نام کیا ہے اور نام کرنے کے بعد ان کے والد نے ان دونوں مکانوں پر قبضہ بھی کیا تھا او ران کے تمام اختیارات بھی اپنے ہاتھ میں لیے تھے تو ہبہ درست ہو گیا اور وہ دونوں مکان پوتوں کی ملکیت ہوں گے۔ (کذا فی کفایت المفتی)
بچوں کے مملوکہ مکان کے کرایہ کی رقم پر زکوٰة نہیں ہے، بچوں کے مملوکہ مکان کے کرایہ کی رقم ان کی اپنی ذاتی ضروریات میں صرف کی جائے، اسی طرح ان کی رقم کو ایسے نفع بخش کام میں لگایا جاسکتا ہے کہ جس سے ان کے مال میں بڑھو تری ہو، خود والدین کے لیے نابالغ بچوں کی رقم کا استعمال عام حالت میں درست نہیں ہے، بحالت مجبوری صرف خوردونوش کی اشیاء خریدنے کی حد تک استعمال کرسکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں اور نہ ہی ان کی ذاتی رقم کسی کو بطور عاریت یا بطور قرض کے دے سکتے ہیں۔
3.… مرحوم نے جو مکانات اپنے بیٹے کے نام کیے ہیں اور مالکانہ تصرفات بھی بیٹے ہی کو دیے ہیں، تو وہ دونوں مکان بیٹے کی ملکیت میں شمار ہوں گے۔
5.… یہ وصیت ہے اور وارث کے لیے وصیت تب درست ہے، جب دوسرے ورثاء بھی اس پر راضی ہوں، لہٰذا ذکر کردہ صورت میں چوں کہ ورثاء صرف آپ دونوں ہیں اور دونوں کے لیے مرحوم نے برابر وصیت کی ہے، چناں چہ اگر دونوں ورثاء اس پر راضی ہیں اور اس وصیت کو نافذ بھی سمجھتے ہیں، تو وصیت درست ہے اور وہ باغ آپ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا، وگرنہ ترکہ میں شامل ہو کر ورثاء کے درمیان ان کے حصص شرعیہ کے مطابق تقسیم ہو گا۔
6.… مرحوم نے جو پلاٹ اپنی بیٹی کے نام کیا ہے اور پورے تصرفات کا اس کو مختار بنایا ہے تو وہ پلاٹ اسی کا ہو گا۔
7.…مرحوم نے اپنی بہوکے نام پلاٹ کرتے وقت کل تصرفات کا ان کو مالک بنایا ہے، تو وہپلاٹ ان کی ملکیت ہو گی۔
دوسرا پلاٹ جو پوتی کے نام کیا ہے، اگر پوتی کی طرف سے اس کے والد نے پلاٹ پر قبضہ کیا ہے تو وہ پلاٹ پوتی کی ملکیت ہوگا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 157/172،178