کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم تقریباً30,35 سال سے بلڈوزر اسپیئر پارٹس کا کام کر رہے ہیں، ہمارے بڑوں نے لاعلمی کی وجہ سے کچھ پارٹس (سامان) لیا تھا جو کہ مشکوک تھا ( یعنی وہ سامان جو بندے لے کر آتے تھے ہمارے پاس، وہ گورنمنٹ ادارے کا تھا) ہمارے بڑوں کو اس کا علم تھا، لیکن ہمارے بڑوں نے تو وہ سامان پیسوں کا ہی خریدا تھا، اب وہ سامان جن گاڑیوں کا تھا ہم اس میں کام نہیں کر رہے ہیں، یا وہ گاڑیاں ختم ہو گئی ہیں، اس میں پرانا سامان بھی ہے اور نیا بھی ہے، اب ہم اس سامان کو اسکریپ میں بیچیں گے یا اگر کوئی دکان دار خریدنا چاہے تو وہ پیسہ ہم اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں؟ او راگر نہیں لاسکتے تو ان پیسوں کا کیا کریں گے؟ اگر کسی کو دینا چاہیں تو کس کو دیں؟
اس میں کچھ سامان پارٹنر شپ کا بھی ہے ،وہ پارٹنر ابھی زندہ ہے، اگر پارٹنر شپ والا سامان ہم ان کے حوالے کریں گے تو ان سے پیسہ لیں گے او راگر وہ پارٹنر ہمیں کہے کہ تم لوگ بیچ دو او رمجھے پیسے دے دو، تو اس کا کیا کریں گے؟
ہمارے بڑے تو اس دنیا سے چلے گئے ہیں ،ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ سامان ہماری ملکیت سے نکل جائے تاکہ ہمارے بڑوں کے لیے آگے چل کر آسانی والا معاملہ بن جائے، تو اس کا ہم کیا کریں؟
صورت مسئولہ میں ان لوگوں کا گورنمنٹ ادارے کا سامان گورنمنٹ کی اجازت کے بغیر فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں تھا، بلکہ ان سے اجازت لینا ضروری تھا، لیکن اب چوں کہ آپ کے بڑے اس دنیا سے چلے گئے، ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے اگر اجازت مل بھی جائے تو بھی معتبر نہ ہو گی، لہٰذا اس سامان پر نہ آپ کے بڑوں کی ملکیت ثابت ہوئی اور نہ آپ کی ملکیت ثابت ہو گی، اب اس سامان کو اس ادارے میں واپس لوٹانا ضروری ہے، یا اس سامان کو بیچ کر رقم سرکاری فنڈ میں جمع کروا دی جائے،جس شخص نے یہ سامان آپ کے بڑوں پر بیچا، اگر وہ زندہ ہو، تو اس سے ادا کی گئی قیمت کی واپسی کا مطالبہ کرنا بھی درست ہے،جہاں تک تعلق ہے پارٹنر شپ والے سامان کا تو جتنا حصہ اس سامان کے پارٹنر کا ہے وہ اس کے حوالے کر دیا جائے، وہ خود ہی اس کا ذمہ دار ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی