کیا فرماتے ہیں علمائے کرام کہ اگر کوئی آدمی کسی زمین دار کے ساتھ اجرت پر گندم کی فصل وغیرہ کی کٹائی اس طور پر کرتا ہے کہ دسواں یا پندرہواں گٹھہ میرا ہو گا، یعنی خود کاٹتا ہے او رجب دس گٹھے پورے ہو جائیں تو نو مالک زمین کو دیتا ہے اور دسواں اپنے لیے لیتا ہے، کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ او رکیوں؟ حوالہ سے واضح فرمائیں۔
اسی نوع کا ایک دوسرا کام بھی ہوتا ہے، وہ یہ کہ بعض جگہوں میں جب درخت کاٹے جائیں تو بسا اوقات اس کی جڑوں کو بھی نکالنا مقصود ہوتا ہے تو اس صورت میں جب درخت کاٹے جائیں اس کی جو جڑیں رہ جائیں تو وہ صرف جلانے کے کام آتی ہیں، تو مالک کسی کو اجرت پر اس طرح دیتا ہے کہ یہ پندرہ جڑیں ہیں، ان کو نکالو، دو تمہاری اور باقی میری، کیا یہ جائز ہے؟
اگر تھریشر کے ذریعے گندم صاف کرانے والا دسویں بوری تھریشر والے کو دیتا ہے ، کیا یہ اخذ الأجرة عن عملہ میں نہیں آتا؟ برائے کرام اس کا حکم ظاہر فرمائیں۔
مذکورہ تینوں صورتیں ( گندم کی فصل وغیرہ کی کٹائی، درختوں کی جڑوں کونکالنے والی صورت اور تھریشر کے ذریعے گندم صاف کرنے والی صورت) قفیز الطحان کے تحت آتی ہیں، اس لیے کہ ان میں کام کرنے والے کے عمل کے حصے کو اجرت بنایا جاتا ہے اور قفیز الطحان والی صورت ممنوع ہے، اس لیے مذکورہ صورتیں بھی ممنوع ہوں گی۔
ان کے جواز کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ ہے کہ کھیت کا حصہ متعین کرکے کہے کہ اس میں لگی ہوئی گندم تمہاری اجرت ہے، بقیہ کھیت کاٹ کر یہ اجرت میں لے لو، دوسری صورت یہ ہے کہ کھیت کاٹنے والے سے یہنہ کہے کہ تمہارے کاٹے ہوئے گٹھوں سے اجرت دوں گا، بلکہ یوں کہے کہ اس کھیت کو کاٹنے کی اجرت مثلاً :دس گٹھے ہیں، پھرجب وہ کاٹ لے تو اسی کے کاٹے ہوئے میں سے بھی دے سکتا ہے، دوسری کسی جگہ سے حاصل کرکے بھی دے سکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی