”
خد ا “
لفظ اﷲ کا متبادل ہے؟کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
۱۔ کیا لفظ”
خد ا “
لفظ اﷲ کا متبادل ہے؟
۲۔ حالانکہ لفظ”
خدا “
قرآن شریف میں نہیں ہے؟
پھر لفظ”
خدا“
زبان زد خاص و عام ہے ، یہاں تک کہ علماء نے بھی قرآن تشریف کے ترجمہ میں اور تفاسیر میں اس کو اپنا یا ہے،قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
لفظ”
خدا “
فارسی زبان کا لفظ ہے جو اﷲ تعالیٰ کےصفتی نام ”
رب “
کا ترجمہ ہے۔ فارسی لغات میں لفظ ”
خدا “ کا وہی ترجمہ کیا گیا ہے، جو عربی لغات میں لفظ ”
رب “ کا ہے ،اور دونوں کے استعمال کا طریقہ بھی ایک ہے کہ بغیراضافت کے ،ان دونوں کا اطلاق صرف ذات باری تعالیٰ پر ہوتا ہے اور اضافت کے ساتھ غیر اﷲ پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ چناں چہ عربی میں کہا جاتا ہے ”
رب الدار“
یعنی گھر کا مالک اور فارسی میں کہا جاتا ہے ”
کدخدا “ یعنی کسی بستی کا سردار۔
فارسی کے مشہور وقدیم لغت کی کتاب ”غیاث اللغات” میں لفظ خدا کے بعینہ یہی معنی لکھے ہیں:”خدا بالضم بمعنی مالک وصاحب وچوں لفظ خدا مطلق باشد برغیر ذات باری تعالی اطلاق نکنند مگر در صورتیکہ بچیزے مضاف شود جوں کہ خدا۔ (غیاث اللغات ص:185، ایچ ایم سعید کمپنی )اور( فرہنگ عربي ،فارسی ص:177، مطبوعہ تہران) میں : ”الرب مالک، صاحب آقا، بزرگوار، مصلح از اسماء خدا وند متعال است ،تو معلوم ہو ا کہ لفظ خدا عربی کے لفظ ”
رب“
کا فارسی زبان میں ترجمہ ہے،اس تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ :
(۱) لفظ خدا، لفظ اﷲ کا متبادل نہیں (۲) لفظ خدا لفظ رب کا ترجمہ ہے اور لفظ رب قرآن مجید میں موجود ہے (۳)لفظ خدا لفظ رب کا ترجمہ ہے اور لمفظ رب ابن ماجہ کی روایت میں اﷲ تعالی کے 99 اسمائے صفات میں شامل ہے: عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ لِلَّہِ تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ اسْمًا مِائَۃً إِلَّا وَاحِدًا إِنَّہُ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ مَنْ حَفِظَہَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَہِیَ اللَّہُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ الْأَوَّلُ الْآخِرُ الظَّاہِرُ الْبَاطِنُ الْخَالِقُ الْبَارِءُ الْمُصَوِّرُ الْمَلِکُ الْحَقُّ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ الرَّحْمَنُ الرَّحِیمُ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ السَّمِیعُ الْبَصِیرُ الْعَلِیمُ الْعَظِیمُ الْبَارُّ الْمُتْعَالِ الْجَلِیلُ الْجَمِیلُ الْحَیُّ الْقَیُّومُ الْقَادِرُ الْقَاہِرُ الْعَلِیُّ الْحَکِیمُ الْقَرِیبُ الْمُجِیبُ الْغَنِیُّ الْوَہَّابُ الْوَدُودُ الشَّکُورُ الْمَاجِدُ الْوَاجِدُ الْوَالِی الرَّاشِدُ الْعَفُوُّ الْغَفُورُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ التَّوَّابُ الرَّبُّ الْمَجِیدُ الْوَلِیُّ الشَّہِیدُ الْمُبِینُ الْبُرْہَانُ الرَّء ُوفُ الرَّحِیمُ الْمُبْدِءُ الْمُعِیدُ الْبَاعِثُ الْوَارِثُ الْقَوِیُّ الشَّدِیدُ الضَّارُّ النَّافِعُ الْبَاقِی الْوَاقِی الْخَافِضُ الرَّافِعُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الْمُعِزُّ الْمُذِلُّ الْمُقْسِطُ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِینُ الْقَائِمُ الدَّائِمُ الْحَافِظُ الْوَکِیلُ الْفَاطِرُ السَّامِعُ الْمُعْطِی الْمُحْیِی الْمُمِیتُ الْمَانِعُ الْجَامِعُ الْہَادِی الْکَافِی الْأَبَدُ الْعَالِمُ الصَّادِقُ النُّورُ الْمُنِیرُ التَّامُّ الْقَدِیمُ الْوِتْرُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ. الخ (ابن ماجہ: باب اسماء اﷲ عزوجل، 275، قدیمی)
نیز اس پر امت کا اجماع ہو چکا ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ قدیم زمانہ سے عوام وخاص اس کو استعمال کرتے چلے آئے ہیں اور آج تک کسی نے اس پر نکیر نہیں کی اور اجماع بھی ایک حجت شرعیہ ہے لہٰذا لفظ خدا کو بولنے میں کوئی اشکال نہیں۔ وحکمہ فی الاصل ان یثبت المراد بہ شرعا علی سبیل الیقین یعنی ان الاجماع فی الامور الشرعیۃ فی الاصل یفید الیقین والقطعیۃ، وفیفکر جاحدہ.(نورالانوار: محبث الاجماع:221،سعید)۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی