کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے کیماڑی میں کچھ لوگوں نے( جو اپنے آپ کو توحیدی کہتے ہیں) چند نظریات باطلہ لے کر اپنی جماعت کی بنیاد قائم کی ہے،ان جملہ نظریات باطلہ میں ایک نظریہ یہ ہے کہ تعویذ لٹکانا شرک ہے اور ان پر انہوں نے ایک رسالہ بھی لکھا ہے،جامعہ فاروقیہ چوں کہ پاکستان کی عظیم درس گاہوں میں ایک ہے، اس لیے یہاں کے مفتیان کرام سے عرض ہے کہ اس مسئلے کی وضاحت تفصیل کریں اور اثبات تعویذ پر دلائل ذکر فرماکر علاقہ کے عوام پر احسان کا معاملہ فرمائیں،یہاں کے عوام آپ کے اس کارنامے کا تہہ دل سے شکریہ ادا کریں گے؟
تعویذ لکھنے میں شرعاً تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اس کے لیے کچھ شرطیں ہیں۔
اول : یہ بات مدنظر ہو کہ تعویذ بذات خود مؤثر نہیں، بلکہ اﷲ تعالیٰ کے اسماء اور مقدس کلمات کی وجہ سے ان سے شفا حاصل ہوتی ہے۔
دوم: یہ کہ تعویذ کے الفاظ وکلمات شرکیہ نہ ہوں۔
سوم :یہ کہ غیر معلوم المعنی کلمات نہ ہوں۔
چہارم :یہ کہ تعویذ جائز مقصد کے لیے کیا جائے۔
جن احادیث میں منع آیا ہے ان سے تعویذات شرکیہ وکفریہ مراد ہیں، اسمائے الہٰی یا آیات قرآن پر مشتمل تعویذ مراد نہیں، ان کو شرک کہنا جہالت ہے۔
''أجمع العلماء علی جوازالرقیۃ عند اجتماع ثلاثۃ شروط: لن یکون بکلام اﷲ تعالیٰ وبأسمائہ وبصفاتہ، وباللسان العربی، أو بیما یعرف معناہ من غیرہ، وأن یعتقد أن الرقیۃ لا تؤثر بذاتھا بل بذات اﷲ تعالیٰ.'' (فتح الباری، کتاب الطب:١/١٩٥، دارالفکر)
"و سئل ابن المسیب عن التعویذ أیعلق ؟ قال : إذا کان في قصبۃ أو رقعۃ یحرز، فلابأس بہٖ ۔ و ھٰذا علیٰ أن المکتوب قرآن ۔ وعن الضحاک أنہ لم یکن یری بأسا أن یعلق الرجل الشيء من کتاب اللہ إذا و ضعہ عند الجماع و عند الغائط ، و رخص أبو جعفر محمد بن علي في التعویذ یعلق علی الصبیان ، وکان ابن سیرین لا یری بأسا بالشيء من القرآن یعلقہ الإنسان."(تفسیر قرطبی، سورۃ الاسراء: ۸۲ ، ج:۱۰ ، ص:۳۲۰،ط:دار المعرفۃ )
"و إنما تکرہ العوذۃ اذا کانت بغیر لسان العرب و لا یدری ما ھو ، ولعلہ یدخلہ سحر أو کفر أو غیر ذلک و أما ما کان من القرآن أو شیء من الدعوات، فلا بأس بہ." ( رد المحتار ، ج: ۶، ص: ۳۶۳).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی