کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ اگر میں ہاتھ دیکھنے کا علم صرف شوقیہ طور پر حاصل کروں، اس کو کاروبار بنانے، یا کسی کا ہاتھ دیکھ کر بتانے کے لیے نہیں، ویسے ہی شوق پورا کرنے کے لیے حاصل کروں تو جائز ہے، یا نہیں؟شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
ہاتھ دیکھنے والے کو ”عرّاف“ کہتے ہیں، حدیث میں ہے: جو ”عرّاف“کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھ کر اس کی بات کی تصدیق کی تو اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہو گی۔(کما فی المشکوٰۃ عن مسلم،ص:٣٩٣)
اس حدیث میں ”عرّاف“ کے پاس جا کر کسی چیز کے پوچھنے سے ہی منع کیا جارہا ہے ، چہ جائیکہ اس سے یہ علم حاصل کیا جائے؛لہٰذا ایسا علم شوقیہ طور پر سیکھنا بھی جائز نہیں، کیوں کہ جب یہ علم آجاتا ہے، تو پھر انسان کی ( قدرتی طور پر) خواہش ہوتی ہے کہ میں مزید آگے بڑھوں، یہاں تک کہ بعض اوقات وہ اس علم کے ذریعے کفر تک پہنچ جاتا ہے،حدیث ترمذی میں ہے ”جو مشتبہات کے پیچھے پڑتا ہے، وہ ایک نہ ایک دن حرام میں مبتلا ہو جاتا ہے“۔اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔
حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے آدمی کے اسلام کی خوبی یہ بتائی ہے کہ بے مقصد چیز کو ترک کر دے اور یہ فن شوقیہ طور پر سیکھنا بے مقصد مشغلے ہی میں داخل ہے، اس لیے یہ وقت کسی عالم سے قرآن کریم سمجھنے یا دینی کتب کا مطالعہ کرنے میں صرف کیا جائے،یا کسی صحیح العقیدہ بزرگ سے اصلاحی تعلق قائم کرکے ان سے استفادہ کیا جائے۔
”عَنْ النعمان بن بشیر قَال سَمِعْت رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقول الحلال بین والْحرام بَین وَبین ذلِک أمور مشتَبِہَات لَا یَدری کَثِیر مِنْ النَّاس أَمِنْ الْحَلَالِ ھیَ أَمْ مِنْ الْحَرَامِ فَمَن ترکہا اسْتِبْرَاء ً لِدِینِہِ وَعِرْضِہِ فَقَدْ سَلِمَ وَمَنْ وَاقَعَ شَیْئًا مِنْہَا یُوشِکُ أَنْ یُواقِع الْحَرام.''(ترمذی، کتاب البیوع، باب ماجاء فی ترک الشبھات ٢٢٩/١، سعید)
''عَنْ عَلِی بْن حُسیْن قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنّ مِنْ حُسْن إِسْلَام الْمَرْء تَرْکَہ مَا لَا یَعْنِیہ''(ترمذی، ابواب الزھد،٥٨/٢، سعید)۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی