کیا فرماتے ہیں علما کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے بکر سے کہا کہ ہروہ کھیل جس میں ذہن استعمال ہوتا ہو ناجائز ہے اور بالخصوص کرکٹ کہ یہ کفار کی ایجاد ہے اور حدیث میں آتا ہے”من تشبہ بقوم فھو منہم“ اگرچہ نشاط وغیرہ کی نیت سے کیوں نہ ہو؟
کسی کھیل کے جواز کے لیے چند شرائط ہیں:
کھیل سے مقصود محض ورزش ( خواہ جسمانی ہو یا ذہنی) تفریح ہو، لیکن خود اس کھیل کو مقصد نہ بنایا جائے۔
کھیل بذات خود جائز بھی ہو، اس کھیل میں کوئی ناجائز بات نہ ہو۔
اس قدر انہماک نہ ہو کہ دین ودنیا کے اہم کاموں میں غفلت کا باعث بنے۔
اس سے دوسروں کو اذیت اور تکلیف نہ ہو، جیسا کہ آج کل گلیوں اورسڑکوں کو کھیل کا میدان بنایا جاتا ہے، جس سے گزرنے والوں کو سخت اذیت ہوتی ہے۔
ناجائز کھیلوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔
بے دین لوگوں کا شعار نہ ہو۔
ہارجیت پر شرط نہ لگائی گئی ہو۔
باقی جہاں تک تعلق ہے کرکٹ کا، تو یہ کھیل فی نفسہ جائز ہے، کیوں کہ اس سے تفریح طبع اور ورزش وتقویت ہوتی ہے ، جو دنیوی اہم فائد ہ بھی ہے اور دینی فوائد کے لیے سبب بھی، اب اگر مذکورہ بالا شرائط کو ملحوظ رکھا جائے، تو اس کھیل میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر ایک شرط بھی مفقود ہو تو پھر یہ ناجائز ہو گا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی