کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مذکورہ مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے ایک مدرسہ کے مہتمم سے معاہدہ کیا کہ آپ کے مدرسے کے لیے چندہ کروں گا، اگر تیس ہزار کیاتو پندرہ ہزار میں لوں گا اور مہتمم نے اس کے ساتھ اسی معاہدے پر ستخط کیا، کیا از روئے شریعت اس طرح مدرسہ کا پیسہ چندہ والے کو دیاجا سکتا ہے یا نہیں؟ جب کہ جدید فقہی مسائل جلد نمبر196/4،ط:زمزم) میں اس کو عرف کی بنیاد پر جائز قرار دیا ہے، اسی طرح فتاوی دارالعلوم زکریا میں بھی( 648/5 )عرف کی بنیاد پر جواز کو ترجیح دی ہے، بقیہ اکثر فتاوی میں قفیز الطحان کی بنیاد پر ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
لہٰذا آپ حضرات آخری فیصلہ صادر فرما کر مشکور وممنون فرمائیں۔
واضح رہے کہ یہ معاملہ اجارہ کا ہے اور اجارہ میں اجرت کا معلوم ہونا ضروری ہے ، جب کہ یہاں اجرت مجہول ہے اور اجرت کے مجہول ہونے کی وجہ سے اجارہ فاسد ہو جاتا ہے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ اس میں اجیر کے عمل سے حاصل ہونے والی چیز کو اجرت بنایا ہے، حالانکہ اجیر کے عمل سے حاصل ہونے والی چیز کو اجرت بنانا درست نہیں۔
لہٰذا ان دو وجوہات کی بنا پر یہ معاملہ شرعاً جائز نہیں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی