کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرے نانا کے بھائی کا انتقال ہو گیا ہے، ان کی کوئی اولاد نہیں، ان کے ورثاء میں ایک بھائی، ایک بہن اور بیوہ موجود ہیں، میت کی ملکیت میں کیش کے علاوہ دو گھر بھی ہیں جن میں سے ایک گھر ان کے نام پر ہے، جب کہ دوسرا گھر مرحوم نے بڑے بھائی کے نام خریدا تھا، البتہ تاحیات مرحوم خود ہی اس میں رہے، بڑے بھائی کا انتقال مرحوم سے پہلے ہوچکا ہے، یہ دوسرا گھر مرحوم کے ورثاء کا ہو گا یا ان کے بڑے بھائی کے ورثاء کا؟
واضح رہے کہ گھر کسی دوسرے کے نام پر خرید کر محض کاغذات کی حد تک اس دوسرے کا نام لکھوا دینا شرعاً ملکیت کی دلیل نہیں، بلکہ باقاعدہ اپنی زندگی میں گھر اس کے حوالے کر دینا ضروری ہے، اس لیے کہ یہ ہبہ کی ایک صورت ہے اور ہبہ تام ہونے کے لیے موہوبہ چیز پر قبضہ کرنا شرط ہے، قبضے کے بغیر ہبہ تام نہیں ہوتا، مسئولہ صورت میں مرحوم نے بڑے بھائی کے نا م گھر خرید کر اس کے قبضے میں نہیں دیا، بلکہ تاحیات مرحوم خود ہی اس میں رہے، لہٰذا مذکورہ گھر مرحوم کا ترکہ شمار ہو کر ان کے ورثاء میں تقسیم ہو گا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی