تقسیم میراث سے پہلے ترکہ سے خفیہ مال لینے کا حکم

Darul Ifta mix

تقسیم میراث سے پہلے ترکہ سے خفیہ مال لینے کا حکم

سوال

 کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مرحوم کی بیوہ جو کہ عدت میں بیٹھی ہیں، انہوں نے میراث کی تقسیم کے معاملے سے پہلے ہی خفیہ طور پر اپنے بھتیجے وغیرہ کو بلا کر گھر سے ساری رقم (جس کی مالیت تاحال معلوم نہیں ہوسکی) ان کے حوالے کر دی اور گھر خالی کر دیا، سکے تک نہ چھوڑے، واضح رہے کہ مرحوم نے زندگی بھر کی کمائی ( جو کہ کروڑوں میں ہے) جوڑ جوڑ کر گھر پر چھپا کر رکھی، بینک میں معمولی کیش رکھواتے تھے، یہ بات سارے خاندان میں مشہور ہے۔

مال کی ڈکیتی نما منتقلی کے بعد مرحوم کی بیوہ کے گھر کے کچھ افراد مرحوم کے مکان پر مکان کے کاغذات کے چکر میں آئے، خبر ملنے پر ہم نے کارروائی کی او ربھتیجا موصوف کو پکڑ لیا، جب موصوف ہمارے ہاتھ لگا تو اس کے پاس سے صرف 35 لاکھ روپے نکلے جس کے بارے میں وہ کہتا ہے کہ ”چاچی نے یہ رقم میرے پاس بطور امانت رکھوائی تھی، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے“، اس کے اس جھوٹ پر کسی کو شک نہیں۔

مرحوم انتقال سے قبل تقریباً دو ہفتے ہسپتال میں ایڈمٹ رہے جس دوران ان کی بیوی کے گھر والے عیادت کے بہانے کثرت سے گھر کا چکر لگا کر صورت ِ حال کا مکمل جائزہ لیتے رہے۔ مرحوم کی بیوہ مکمل طور پر اس چوری میں ملوث ہے، ثبوت کے طور پر ان کا اعتراف آن دی ریکارڈ موجود ہے جس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ : ” مجھے ان لوگوں پر مکمل بھروسہ ہے، جبھی میں نے ان کو سارے پیسے دیے“۔ میکے والے صرف مذکورہ35 لاکھ روپے ظاہر کر رہے ہیں، جب کہ ایک خطیر رقم، زیورات وغیرہ سب غائب ہیں،35 لاکھ روپے میں بھی اکثر رقم سودی بانڈز کی شکل میں ہے، جنہیں واپس کرنا ایک طرح سے ان کی مجبوری بھی تھی، کیوں کہ جس ڈائری میں مرحوم نے سارے بانڈز درج کر رکھے تھے، وہ ڈائری ہمارے پاس ہے۔

کیا اس سب کچھ کے باوجود اب بھی مرحوم کی بیوہ کو دونوں گھروں یابقیہ کیش سے بطور وارث حصہ ملے گا؟ جب کہ اس کا دس گنا وہ صاف کرواکے لے جاچکی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر یہ بات شرعی طریقہ سے ثابت ہو جائے کہ واقعی مرحوم کی بیوہ نے ترکہ سے اپنے حق کے بقدر یا اس سے زیادہ کی مالیت خفیہ طور پر اپنے بھتیجے یا کسی اور کو دی ہوئی ہے تو وہ اپنے حق کو وصول کرنے والی شمار ہو گی، بقیہ ترکے سے اس کو حصہ لینے کا حق نہیں اور اضافی رقم واپس کرنا اس کے ذمہ لازم ہو گا، لیکن اگر یہ بات ثابت نہ ہوئی تو مرحوم کی بیوہ بہرصورت موجودہ ترکہ میں اپنے حصہ کی حق دار ہے۔

اس پر عمل کی بہتر صورت یہ ہو سکتی ہے کہ خاندان میں سے کسی بڑے کو باہمی رضا مندی سے مقرر کرلیا جائے جو مذکورہ شرعی حکم کی روشنی میں معاملات کو سمیٹ دے، تاکہ مزید لڑائی جھگڑے کی کوئی فضا نہ بنے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی