کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ میں؟
ہمارے علاقے میں عام عمل اور رواج یہ ہے کہ فیصلوں کے لیے تمام فریقین کی رضا مندی سے اختیار نامے لے کر جرگہ ( پنچایت) ہوتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں تاکہ باہمی لڑائی جھگڑا ختم ہو جائے او رعلاقے میں کوئی شر وفساد پیدا نہ ہو۔ جرگہ کرنے والے دین دار اور تجربہ کار ہوتے ہیں۔ برابری اور انصاف کی پوری کوشش کرتے ہیں اور آخر میں غیر دانستہ غلطی پر تمام فریقین سے معافی بھی مانگتے ہیں اور فریقین معاف بھی کر دیتے ہیں۔
یہ فیصلے اکثر مشترکہ زمین مکان کی تقسیم یا لڑائی جھگڑے کے ہوتے ہیں۔
کیا ایسے جرگہ ( پنچایت) کے فیصلوں کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟
کسی فیصلے کو تمام فریقین کے ماننے کے کچھ دن بعد ایک آدمی (فریق) انکار کرے اور شر وفساد کی کوشش کرے اس کے لیے کیا حکم ہے ؟
جرگہ کی تقسیم اور فیصلے کے بعد کوئی آدمی ( فریق) زبردستی یا چوری سے دوسرے کے حصے سے درخت کاٹے اس کا کیا حکم ہے؟
کیا جرگہ والوں کو شروفساد کے خاتمے کے لیے اپنے فیصلوں پر عمل میں سختی کی اجازت ہے۔ مثلاً اس آدمی ( فریق) کا بائیکاٹ کرنا وغیرہ وغیرہ تاکہ اُس کو تنبیہ ہو۔ کیا ایسا کرنا عارضی طور پر جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ ہر مستحق کو اس کا حق دلانا شریعت مطہرہ میں مطلوب ومقصود ہے او رحق دار کو جہاں کہیں سے بھی اپنے حق کا اطمینان ہو جائے چاہے قاضی کے ذریعہ سے ہو یا کسی اور ذریعہ سے مثلاً (جرگہ (پنچایت) یا کسی ثالث کو حَکَمْ) بنانے کی صورت میں ہو اس میں شریعت مطہرہ نے فریقین کو اختیار دیا ہے جسطرح دوسرے معاملات مثلاً: خرید وفروخت، نکاح، طلاق وغیرہ میں ہر ایک شخص کو اپنے اوپر ولایت حاصل ہے ، اسی طرح تنازعات میں بھی اگر وہ اپنی ولایت کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی تنازعہ کے تصفیہ کے لیے کسی کو حَکَمْ یا جرگہ ( پنچایت) کو مقرر کرے تو شرعاً یہ جائز ہے۔ البتہ اس میں چند امور کی رعایت لازمی اور ضرور ی ہے جو کہ درجہ ذیل ہیں۔
شرعی فیصلہ کرنے والے اہل علم مفتیان وعلمائے کرام کی جماعت ہو اور اگر ساری جماعت اہل علم کی نہ ہو تو کم از کم اس پنچایت میں ایک ماہر عالم دین کا ہونا ضروری ہے ، تاکہ فریقین کا فیصلہ شرعی اصول وقواعد کے موافق ہو۔
جرگہ ( پنچایت) یاکسی کو ثالث ( حَکَمْ) مقرر کرنے میں فریقین کی رضا مندی ضروری ہے۔
ثالث (حَکَمْ) یا پنچایت کا فیصلہ فریقین کی موجودگی میں ہو ۔
جس شخص کو حکم یا جس جماعت کو پنچایت کے طور پر مقرر کیا گیا ہو ، اس میں ان صفات کا پایا جانا ضروری ہے ، جو ایک شرعی قاضی کے لیے ضروری ہیں ، مثلاً: مسلمان ہونا، عاقل، بالغ ہونا وغیرہ وغیرہ۔
جب فریقین باہم رضا مندی سے کسی پنچایت ، یا حَکَمْ سے فیصلہ کر والیں اور وہ فیصلہ شرعی اصول وقواعد کے موافق ہو ، تو وہ فیصلہ شرعاً نافذ ہو گا، پھر فریقین کا اس پر عمل کرنا لازم اور ضروری ہے۔
تاہم فیصلہ سے قبل اگر فریقین پنچایت یا ثالث کو اپنا حکم تسلیم نہ کریں تو ایسی صورت میں ان کا فیصلہ شرعاً معتبر نہیں ہو گا، لیکن فیصلہ کرنے کے بعد اگر کوئی انکار کرتا ہے تو اس کا انکار شرعاً معتبر نہیں ہو گا۔
شرعی فیصلہ کے بعد دوسرے کا حق دبانا، یا چوری کرنا، ناجائزاور حرام ہے او رایسا کرنے والا عند الله جوابدہ ہو گا۔
واضح رہے کہ اگر پنچایت کا فیصلہ شرعی اصولوں کے موافق ہو اوراس کے باوجود بھی کوئی شخص فیصلہ کے بعد اس میں شر وفساد کرنا چاہے اور شرعی فیصلہ کو تسلیم نہ کرے، تو ایسے شخص کو ابتداءً نرم لہجہ کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی جائے تاہم وہ اگر اپنے شروفساد سے باز نہ رہے تو ایسے شخص سے قطع تعلق بھی شرعاً جائز ہے، تاکہ حقوق الله کی پاس داری رہے۔
نیز، بغیر کسی شرعی وجہ کے کسی مسلمان سے قطع تعلقی کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی