کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی وکیل کے پاس وکالت کے فن پر نصاب سے زیادہ کی کتابیں ہوں، ان میں وقتاً فوقتاً اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے، ان کی زکوٰۃ کا حکم کیا ہے؟ آیا ان پر زکوٰۃ ہے بھی یا نہیں، کیوں کہ وہ تجارت کے کام میں ایک طرح استعمال میں آتی ہیں؟
کتابوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، علامہ شامی لکھتے ہیں کہ زکوٰۃ تو واجب نہیں ہے، البتہ اگر کتابیں ایسے آدمی کے پاس ہوں ،جو اہل نہ ہو تو پھر اس کے لیے دوسروں سے زکوٰۃ لینا جائز نہیں۔''فلا زکاۃ علی مکاتب۔۔۔ وکذا الکتب وإن لم تکن لأھلھا إذا لم تنو للتجارۃ، غیر أن الأھل لہ أخذ الزکاۃ وإن ساوت نصبا.
وفي الرد: '' إن الکتب لا زکاۃ فیھا علی الأھل وغیرھم۔۔۔ وإنما الفرق بین الأھل وغیرھم في جواز أخذ الزکاۃ والمنع عنہ، فمن کان من أھلھا۔۔۔ فلہ أخذ الزکاۃ۔۔۔ وأما غیر الأھل فإنھم یحرمون بالکتب من أخذ الزکاۃ''. (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاۃ، مطلب في زکاۃ ثمن المبیع وفائً: ٣/٢١٤، ٢١٧، دارالمعرفۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی