کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ دین سے دوری تھی ،پہلے گھر میں رہتا تھا اور چاچیوں کو غلط نگاہ سے دیکھتا تھا،نعوذباللہ چاچی کے ننگے جسم تک کو دیکھ لیا گیااور شہوت کی وجہ سے چاچی کے جسم کو چھوا بھی ہے، تو اب زید کو اپنے گناہوں کا احساس ہوا ہے، اللہ پاک سے توبہ کی ، ایسی صورت کے بعد اب زید کی اسی چاچی نے اپنے بھائی کی بیٹی کے ساتھ زید کا رشتہ طے کرادیا۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ زید کی چاچی کی بھتیجی کے ساتھ زید کا نکاح درست ہے؟ اور اگر زید کی آنے والی اولاد کا اور چاچی کی اولاد کا آپس میں نکاح ہو گیاتو کیا اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہوگا؟اسی طرح زید کی چچی ، زید کے دادا جان کی چچا زاد بہن کی بیٹی بھی ہیں،اب زید اور چچی سب لوگ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اور یہ اس قسم کی حرکات زید نے اپنے دادا جان کے بھائی کی بیوی سے کی ہیں اور اس وجہ سے زید کی چچی زید کے چچا کے لیے حرام تو نہیں ہوگی؟ اور زید کے دادا جان کے بھائی کی بیوی زید کے دادا کے بھائی پر حرام تو نہیں ہوگی؟اور ایسے گناہ سے توبہ بھی کی ہے، پلیز اس مسئلے کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں تحریری طور پر دیجئے۔ جزاک اللہ راہنمائی کیجئے۔
واضح رہے کہ شہوت سے چھونے کی وجہ سے جو حرمت مصاھرت ثابت ہوتی ہےاس کی وجہ سےوہ عورت اس (شہوت سے چھونے والے )مردکے اصول و فروع ( باپ اور دادا یا اولاد اور اولاد کی اولاد ) کے لیے ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے، اور اس عورت کے اصول و فروع اس مرد پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتےہیں،اصول و فروع کے علاوہ دیگر عورتیں مثلاً بھتیجی ، بھانجی وغیرہ اس مرد پر حرام نہیں ہوگی، اور نہ ہی اس مرد و عورت کی اولاد کا آپس میں نکاح حرام ہوگا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں زید کا نکاح اپنی اس چچی (جس کو شہوت سے چھوا ہے) کی بھتیجی سے جائز اور حلال ہے۔اور اسی طرح زید کی اولاد کا نکاح اس کی اس چچی کی اولاد سے بھی جائز اور حلال ہوگا۔
نیز زید کی ان حرکات کی بناء پر اس کی چچی زید کے چچا پر بھی حرام نہیں ہوگی، اور نہ ہی زید کے دادا جان کے بھائی کی بیوی زید کے دادا کے بھائی پر حرام ہوگی۔
لمافي الشامية:
قوله ( وحرم أيضا بالصهرية أصل مزيته ) قال في البحر أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها اه
(كتاب النكاح ، فصل في المحرمات ،4113،114،ط:رشيدية)
وفي التتارخانية:
وذكر في الظهيرية أصلا مضبوطافقال: تحرم الموطوءة على أصول الواطي وفروعه و تحرم على الواطي اصولها وفروعها ، وكذلك النظر الى داخل الفرج بشهوة واللمس بشهوة الخ.
(كتاب النكاح ، الفصل:8،أسباب للتحريم ، 449،ط: فاروقية )
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 170/89