کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں :
۱۔اگر کسی نے قربانی کے لیے بکرا خریدا پھر ذبح کرنے کے بعد پتہ چلا کہ کہ یہ بکر ا چوری کا ہے تو ابھی اس کی قربانی کا کیا حکم ہے؟
۲۔اگر کسی نے قربانی کے لیے بکرا خریدا ، لیکن ذبح کرنے سے پہلے پتہ چلا کہ یہ بکرا چوری کا ہے ، اور اس حال میں بائع بھی غائب ہو گیا تو ابھی اس کی قربانی کا کیا حکم ہے ؟ راہنمائی فرمائیں ۔ شکریہ
۱۔صورتِ مسئولہ میں چوری کا جانور خریدنے والا شخص اس جانور کا مالک نہیں بنا ، جبکہ قربانی کے صحیح ہونے کے لیے اس جانو ر کا مالک ہونا ضروری ہے، لہذا سوال میں ذکر کردہ پہلی صورت پہلی صورت میں چوری کا جانور ذبح کرنے سے اس شخص کی قربانی درست نہیں ہوئی۔
۲۔ اس صورت میں اس شخص پر واجب ہے کہ وہ جانور اصل مالک تک پہنچادے اور اگر اصل مالک تک رسائی کسی طرح بھی ممکن نہ ہو تو پھر وہ فقراء پر صدقہ کردے ۔
لما في البدائع:
والثاني ملك المحل وهو أن يكون المضحي ملك من عليه الأضحية فإن لم يكن لا تجوز لأن التضحية قربة ولا قربة في الذبح بملك الغير بغير إذنه وعلى هذا يخرج ما إذا اغتصب شاة إنسان فضحى بها عن نفسه أنه لا تجزيه لعدم الملك.
(كتاب التضحية،6317،ط: رشيدية)
وفي الشامية:
قال في البدائع:غصب شاة فضحى بها عن نفسه أنه لا تجزئه لعدم الملك.(كتاب الأضحية،4547،رشيدية)
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:170/241