کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ آج کل جو مدارس میں سالانہ جلسہ ہوتا ہے او راس میں طلباء کو بطور انعام کتابیں دی جاتی ہیں، اسی طرح علماء کی آمد ورفت پر خرچ شدہ رقم وغیرہ یہ مدرسہ کے چندہ سے خرچ کرنا کیسا ہے؟
اگر چندہ دینے والوں نے چندہ دیتے وقت مصرف کی تعیین کر دی ہے ، تو اسی مصرف پر چندہ صرف کیا جائے گا اس کے خلاف نہیں، اور اگر مصرف کی تعیین نہیں کی بلکہ مہتمم کو مصالح مدرسہ میں صرف کرنے کا مکمل اختیار دیا ہے تو پھر یہ چندہ کی رقم مدرسہ کی ہر مصلحت میں خرچ کی جاسکتی ہے ، صورت مسئولہ میں چوں کہ انعامی جلسہ منعقد کرنا بھی مصالح مدرسہ میں داخل ہے، لہٰذا اس جلسے پر آنے والے اخراجات چندہ کی رقم سے پورے کیے جاسکتے ہیں ، البتہ غیر ضروری اخراجات (جو مصالح مدرسہ سے متعلق نہ ہوں ) چندہ سے پورے کرنا جائز نہیں، لہٰذا چندہ کی رقم سے جس طرح طلبہ کو وظیفہ دینا درست ہے اسی طرح طلبہ کو امتحان میں کامیابی کے موقع پر انعامات دینا بھی درست ہے، اور باہر کے علمائے کرام مہمانوں کی آمد کی وجہ سے جلسے میں لوگوں کی شرکت اور پھر مدرسے کے ساتھ مالی تعاون زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ان کی آمدورفت کے اخراجات بھی چندہ کی رقم سے پورے کیے جاسکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی