کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ اگر چلتے کاروبار میں ایک متعین مدت کے لیے نئی سرمایہ کاری(investment) شامل کی جائے،اور شرکاء (کاروبار کا اصل مالک اور نیا شریک ) یہ طے کر لیں کہ اس متعین مدت کے بعد اصل مالک اس نئی سرمایہ کاری کو خرید لے گا اور شراکت ختم کرتے وقت کاروبار کا مکمل حساب کرکے نئے شریک کو متعین فیصد نفع دے دیا جائے گا اور کاروبار کے حساب میں کاروبار کی گڈ ول(goodwill) کو شامل کیا جائے گا۔نیز کاروبار کی گڈول(goodwill) متعین کرنے کے لیے ایک ایسا واضح فارمولا طے کرلیتے ہیں،جس میں جھگڑے کا امکان نہیں:
(مثلاً goodwill=5% of sales + net profit ) براہ کرم قرآن کی روشنی میں فتوی عنایت فرمائیں کہ
۱۔۔ شراکت کی مذکورہ صورت جائز ہے ،یا نہیں ؟ اور اس شرط کی کیا حیثیت ہوگی ؟
۲۔۔ متعین مدت مکمل ہونے پر اگر اصل مالک اس شرط کے مطابق نئے شریک کا حصہ نہ خریدے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟
۳۔۔ بوقت شراکت ،اختتام شراکت کے لیے گڈول کا ایسا فارمولا طے کرنا شرعاً جائز ہے ،یا نہیں ؟
۴۔۔ اختتام شراکت کے وقت گڈول سے متعلق اس فارمولا کی پابندی فریقین پر شرعاً لازم ہوگی یا نہیں ؟
۱۔ کسی شخص کا چلتے کاروبار میں رقم لگاکر شریک ہونا درحقیقت شرکت ہے،لیکن چونکہ شرکت کےجواز کے لیے ضروری ہے کہ دونوں شرکاء کی طرف سے نقدرقم ہو،(جبکہ صورتِ مسئولہ میں شرکت چلتے کاروبار میں ہورہی ہے،تو لامحالہ اس میں نقد ی کے علاوہ سامان وغیرہ بھی ہوگا)،اورائمہ احناف (رحمھم اللہ ) کے نزدیک شرکت بالعروض(سامان کے ساتھ شرکت) جائز نہیں ہے،تاہم اس کی جائز صورت یہ ہوگی کہ پہلے سے موجود تمام اثاثوں کی قیمت لگا کر یہ نیا شریک اپنے سرمائے کے بقدر ان ثاثوں کو خرید کر مالک بن جائے گا،پھرشرکاء میں سے ہر ایک اپنے اپنے حصّے کے تناسب سے نفع و نقصان میں شریک ہوجائیں۔
۲۔ عقد شرکت ایک عقد غیر لازم ہے ، لہذا ایک متعینہ مدت کے بعدکسی بھی شریک کے لیے یہ عقدختم کرنا درست ہوگا،لیکن اس میں یہ شرط لگانا کہ اصل مالک ہی اس کے حصے کو خرید لے گا،اس شرط کی کوئی حیثیت نہیں، یہ لغو ہوگی،وہ شریک اپنے حصے میں خود مختار ہوگا،لہذاکسی تیسرے شخص کو (جو اس سے زیادہ قیمت پر لینا چاہے)اپنا حصّہ فروخت کرسکتا ہے،نیز اس شرط کی وجہ سے اصل مالک پر اس کے حصے کو خریدنا بھی لازم نہیں ہوگا ۔
۳،۴۔ گڈول محض ایک حق ہے، جس کی الگ سے کوئی قیمت مقرر نہیں کی جاسکتی ،اس لیے اس کے لیے کوئی فارمولا طے کرکے اس کی قیمت مقرر کرنابھی درست نہیں،اور فریقین پر اس معاہدے کی پابندی بھی لازم نہیں ہوگی۔
وفي البدائع :
(منها: (شرائط جواز الشركة) أن يكون الربح معلوم القدر ... وأن يكون جزءً شائعًا في الجملة لا معينًا ... أما الشركة بالأموال فلها شروط، منها أن يكون رأس المال من الأثمان المطلقة ... وهي الدراهم والدنانير عنانًا كانت الشركة أو مفاوضة ... ولو كان من أحدهما دراهم ومن الآخر عروض فالحيلة في جوازه أن يبيع كل واحد منها نصف ماله بنصف دراهم صاحبه ويتقابضا ويخلطا جميعًا حتى تصير الدراهم بينهما والعروض بينهما ثم يعقدان عليهما عقد الشركة فيجوز. (كتاب الشركة،: 6/59 ط: سعيد)
وفي الهندية:
لو كان المال منهما في شركة العنان والعمل على أحدهما إن شرطا الربح على قدر رءوس أموالهما جاز ويكون ربحه له ووضعيته عليه وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله لم يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة ولكل واحد منهما ربح ماله، كذا في السراجية، ولو شرطا العمل عليهما جميعا صحت الشركة وإن قل رأس مال أحدهما وكثر رأس مال الآخر واشترطا الربح بينهما على السواء أو على التفاضل فإن الربح بينهما على الشرط والوضيعة أبدًا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج.
وفيه أيضًا:
فإن عملا وربحا فالربح على ما شرطا وإن خسرا فالخسران على قدر رأس مالهما، كذا في محيط السرخسی (كتاب الشركة، الباب الثالث في شركة العنان،319،3202 ط: دارالفكر)
وفي البدائع :
قال العلامة علاؤالدین الکاسانی رحمه الله تعالی :أن يكون رأس المال من الدراهم أو الدنانير عند عامة العلماء فلا تجوز المضاربة بالعروض، وعند مالك رحمه الله : هذا ليس بشرط وتجوز المضاربة بالعروض. (كتاب المضاربة، 82/6،دارالكتب)
وفي الشامية:
والربح إنما يستحق بالمال أو بالعمل أو بالضمان....قوله:( والخلط بمال نفسه) أي أو غيره كما في البحر إلا أن تكون معاملة التجار في تلك البلاد أن المضاربين يخلطون، ولا ينهونهم فإن غلب التعارف بينهم في مثله وجب أن لا يضمن كما في التتارخانية.(كتاب الشركة، 649/5، دارالفكر)
. فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:171/267,268