کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ 42000 ہزار پر سود3600 ہے، ان 3600 کے علاوہ باقی ساری رقم میں استعمال کرسکتا ہوں جو بڑھ کے اب 56000 سے کچھ اوپر ہو گئی ہے، یعنی52400 روپے بنتے ہیں، یہ52400 روپے میں استعمال کرسکتا ہوں اور اس کے بعد یہ اور بڑھتے جائیں گے ہر مہینہ10% کے حساب سے۔
الله پاک آپ حضرات کو کروڑوں خوشیاں عطا فرمائے اور دنیا اور آخرت کے ہر میدان میں کام یاب وکامران کرے۔ آمین
بوقت ضرورت ملازم اگر اپنے اس فنڈ سے کچھ رقم نکلواتا ہے او رپھر حکومت قسط وار وہ رقم اس کی تنخواہ سے کاٹتی ہے اور اس کے ساتھ سود کے نام سے کچھ زائد رقم بھی کاٹتی ہے، جو اس ملازم کے اپنے فنڈ ہی میں جمع ہو جاتی ہے، جس سے وہ کمی جو فنڈ کے اندر آگئی تھی، وہ پوری ہو جاتی ہے، لیکن حقیقت میں نہ تو یہ سودی معاملہ ہے اور نہ ہی وہ زائد رقم شرعاً سود ہے جو حکومت سود کے نام سے کاٹتی ہے، لہٰذا مذکورہ طریقہ سے رقم نکالنے کی شرعاً گنجائش ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی