کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیانِ عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ 1.. پراویڈنٹ فنڈ/ ڈی۔ایس۔ پی فنڈ۔ 2.. پنشن/گریجویٹی۔ 3.. بینوولنٹ فنڈ ۔ 4.. گروپ انشورنس۔ ان رقوم کا لینا جائز ہے یا نہیں؟ او ران میں کس کس پر زکوٰة اور میراث کا حکم ہے؟ تفصیل سے جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
پراویڈنٹ فنڈ/ ڈی۔ ایس۔ پی فنڈ:(Provident Fund/ D.S.P Fund)
ملازم کی تنخواہ سے ”پراویڈنٹ فنڈ/ ڈی۔ایس۔ پی فنڈ“ کے نام سے ماہانہ ایک متعین رقم کاٹی جاتی ہے، اس کٹوتی کی دو صورتیں ہیں۔ 1.جبری کٹوتی۔2. اختیاری کٹوتی۔
1. جبری کٹوتی: یہ ہے کہ ہر ملازم کے لیے اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ لازماً کٹوانا پڑتا ہے۔
2. اختیاری کٹوتی: یہ ہے کہ ملازم کو کٹوتی پر مجبور نہیں کیا جاتا ، بلکہ ملازم خود اپنے اختیار سے رقم کٹواتا ہے۔
یہ دونوں قسم کی رقمیں، جب ملازم کی عمر پچاس سال ہو جائے تو وہ وصول کر سکتا ہے ، اگرچہ ریٹائر نہ بھی ہوا ہو اور اگر اس سے پہلے اس کو وصول کرنا چاہے تو اس کا کچھ حصہ چند شرائط کے ساتھ قرض کے نام پر وصول کر سکتا ہے ، جو تنخواہ سے کاٹ کر واپس لیا جاتا ہے اور ریٹائر ہونے کی صورت میں یہ فنڈ مکمل واپس ملتا ہے او رحکومت اس فنڈ پر انٹرسٹ ( سود) کے نام سے اضافہ کرکے یکمشت ادا کرتی ہے۔
پراویڈنٹ فنڈ اور سود
اس فنڈ کے لینے کا شرعی حکم یہ ہے کہ ”پراویڈنٹ فنڈ“ یا ”ڈی۔ایس۔پی فنڈ“ میں جو رقم ملازم کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے، ملازم کی خدمت کا معاوضہ ہے او رملازم کی ملکیت ہے جوابھی تک ملازم کے قبضہ میں نہیں آئی ، لہٰذا یہ رقم محکمہ کے ذمے ملازم کا قرض ( دین) ہے او رملازمت سے فراغت کے بعد ملازم کو اپنا قرض ( دین) وصول کرنے کا حق حاصل ہے ، لہٰذا ”پراویڈنٹ فنڈ“ یا ”ڈی۔ایس۔پی فنڈ“ وصول کرنا شرعاً جائز ہے۔
اور جبری کٹوتی کی صورت میں حاصل ہونے والی زائد رقم جو سود کے نام سے محکمہ ادا کرتا ہے، وہ بھی لینا جائز ہے ، چوں کہ یہ سود نہیں، بلکہ ابتداءِ عقد ہی سے بوجہ اجل ملازم کی اصل تنخواہ میں اضافہ ہے او رکل اضافات اصل تنخواہ میں شمار ہو کر سب کا مجموعہ ابتداءِ عقد ہی سے بدلِ عمل ہے ، بوجہ تأ جیل، بدل میں اضافہ بلاشبہ جائز ہے ، نیز ان اضافات کی شرح شروع ہی سے متعین ہوتی ہے ، اس لیے جہالت بھی نہیں۔
جب کہ اختیاری کٹوتی کی صورت میں ربا( سود) کا شبہ ہے اور یہ بھی خطرہ ہے کہ لوگ اس کو سودخوری کا ذریعہ بنالیں، اس لیے سود کے نام سے ملنے والی زائد رقم سے اجتناب کرنا بہتر ہے، چاہے تو محکمے سے وصول ہی نہ کریں یا وصول کرکے صدقہ کردیں، البتہ اصل رقم لینا درست ہے۔
نیز جو رقم محکمہ ملازم کو اس کے فنڈ سے بوقتِ ضرورت بنامِ قرض دیتا ہے ، پھر اس کی تنخواہ سے قسط وار اتنی ہی رقم اور کچھ مزید رقم جو بنام سود ہوتی ہے، کاٹ کر مجموعہ اسی ملازم کے فنڈ میں جمع کر دیتا ہے، اس طرح ملازم کو رقم دینے سے اس کے فنڈ میں جوکمی آگئی تھی وہ پوری ہو جاتی ہے اور اختتامِ ملازمت( ریٹائر منٹ) پر کل رقم اسی کو مل جاتی ہے۔
یہ معاملہ اگرچہ سودی قرض کے نام سے کیا جاتا ہے ، لیکن شرعی نقطہ نظر سے یہ نہ قرض ہے نہ سودی معاملہ، قرض تو اس لیے نہیں کہ ملازم کا جو قرض محکمہ کے ذمے تھا او رجس کے مطالبہ کا اسے حق تھا اس نے اسی کا ایک حصہ وصول کیا ہے اور بعد کی تنخواہوں سے جو رقم اداءِ قرض کے نام سے قسط وار کاٹی جاتی ہے وہ بھی اداءِ قرض نہیں ، بلکہ فنڈ میں جو رقم معمول کے مطابق ہر ماہ کٹتی تھی اسی کی طرح یہ بھی ایک کٹوتی ہے او راسی کی طرح یہ بھی ملازم کا محکمہ کے ذمے قرض ہے ،کیوں کہ یہ کٹوتی بھی اسی کے فنڈ میں جمع ہو کر اختتامِ ملازمت پر اسی کومل جاتی ہے ۔
اور جو رقم اس کی تنخواہوں سے بنام ِسود کاٹی جاتی ہے وہ بھی شرعاً سود نہیں، اس لیے کہ ” سود“ دوسرے کو دیا جاتا ہے اور یہاں یہ رقم ملازم ہی کو واپس مل جاتی ہے ، لہٰذا ملازم کو مذکورہ طریقہ سے قرض لینے کی شرعاً گنجائش ہے۔
یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ اگر کوئی ملازم اپنے ” پراویڈنٹ فنڈ“ یا” ڈی۔ایس۔پی فنڈ“ کی رقم کی درخواست دے کر کسی انشورنس کمپنی وغیرہ میں منتقل کر ادے ، یا یہ فنڈ ملازم کی رضا مندی سے کسی مستقل کمپنی کی تحویل میں دے دیا جائے ، جیسا کہ بعض سرکار ی محکموں میں ہوتا ہے تو یہ ایسا ہے جیسے خود وصول کرکے انشورنس کمپنی وغیرہ کو دے دیا، اس لیے اس رقم پر جو سود لگایا جائے گا وہ شرعاً سود ہے اور اس کا لینا قطعاً حرام ہے، کیوں کہ اس صورت میں بیمہ کمپنی وغیرہ اس کی وکیل ہو جاتی ہے اور وکیل کا قبضہ شرعاً مؤکل کا قبضہ ہوتا ہے ، اس لیے ”پراویڈنٹ فنڈ“ یا”ڈی ایس پی فنڈ“ کی رقم پر قبضہ کے بعد اس پر سود لینا حرام ہے۔
پراویڈنٹ فنڈ اور زکوٰة
جہاں تک ” پراویڈنٹ فنڈ“ یا ”ڈی ایس پی فنڈ“ پر زکوٰة کا تعلق ہے تو اس کی تفصیل یہ ہے : کہ گورنمنٹ ”پراویڈنٹ فنڈ“ اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ” پراویڈنٹ فنڈ“ کی نوعیت میں کچھ فرق ہے، جس کی وجہ سے احکام میں بھی فرق ہو گا:
گورنمنٹ پراویڈنٹ فنڈ: میں حکومت مستاجر (Employer) ہے اور ملازم اجیر (Employee) ہے چوں کہ فنڈ کی رقم مستاجر (حکومت) کے قبضہ میں رہتی ہے ، اس پر اجیر ( ملازم) کا قبضہ نہیں ہوتا، قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے بدستور حکومت پر دَین ( قرض) ہے ، لہٰذا اس پر زکوٰة فرض نہیں ، وصول ہونے کے بعد بھی اس پر گزشتہ زمانے کی زکوٰة نہیں ، البتہ آئندہ کے لیے زکوة فرض ہونے کی درج ذیل صورتیں ہیں:
ملازم اگر فنڈ وصول ہونے سے پہلے صاحبِ نصاب ( ساڑھے باون تولہ چاندی ( 612 گرام) کی قیمت کا مالک) نہیں تھا اور فنڈ کی رقم بھی اتنی کم ملی کہ اسے ملا کر بھی اس کا کل مال مقدارِ نصاب کو نہیں پہنچتا تو اس پر زکوٰة واجب نہیں ۔
اگر ملازم پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں تھا ، مگر اس رقم کے ملنے سے صاحبِ نصاب ہو گیا ، تو یہ فنڈ وصول ہونے کے وقت سے جب تک پورا ایک قمری ( اسلامی) سال نہ گزر جائے ، اس پر زکوٰة کی ادائیگی واجب نہ ہوگی۔ ( ہاں! اگر وہ پہلے ہی ادا کر دے تو ادا شمار ہو گی ) اور سال پورا ہونے پر بھی اس شرط پر ادائیگی واجب ہوگی کہ اس وقت تک یہ شخص صاحب نصاب رہے ، لہٰذا اگر سال پورا ہونے سے پہلے مال خرچ یا چوری وغیرہ ہو کر اتنا کم رہ گیا کہ یہ شخص صاحبِ نصاب نہ رہا تو زکوٰة واجب نہ ہو گی اور اگرخرچ ہونے کے باوجود سال کے آخر تک مال بقدرِ نصاب ہی رہا تو جتنا باقی بچا صرف اس کی زکوٰة فرض ہو گی ، جو خرچ ہو گیا اس کی فرض نہ ہو گی ۔
اور اگر یہ ملازم پہلے سے صاحبِ نصاب تھا تو فنڈ کی رقم مقدار نصاب سے خواہ کم ملے یا زیادہ اس کا سال علیحدہ شمار نہ ہو گا، بلکہ جو مال پہلے سے اس کے پاس تھا جب اس کا سال پورا ہو گا ، فنڈ کی وصول شدہ رقم کی زکوٰة بھی اسی وقت واجب ہو جائے گی ، خواہ اس نئی رقم پر ایک ہی دن گزرا ہو، مثلاً: ایک شخص کی ملکیت میں نوے ہزار روپے سال بھر موجود رہے ، سال پورا ہونے سے ایک دن پہلے اسے ” پراویڈنٹ فنڈ “ یا ” ڈی ایس پی فنڈ“ کے مثلاً: دس ہزار روپے مل گئے، تو اب اگلے روز اسے پورے ایک لاکھ روپے کی زکوٰة ادا کرنی ہو گی ۔
اگر ملازم نے اپنے فنڈ کی رقم کسی تجارتی کمپنی کو اس شرط پر دی کہ وہ اسے تجارت میں لگائے اور ملازم اس کے نفع ونقصان میں شریک ہو (یعنی کمپنی کو نقصان ہوا تو ملازم کے حصے کا نقصان ملازم پر پڑے اور نفع ہوا تو نفع کا اتنا فی صد ( جتنا بھی طے ہوا ہو ) ملازم کو ملے ) تو جس وقت سے یہ رقم اس تجارتی کمپنی کو منتقل ہو گی اس پر اس وقت سے زکوٰة کے احکام جار ی ہوں گے او رہر سال کی زکوٰة ملازم پر ضابطہ کے مطابق واجب ہوتی رہے گی او رجب اس پر نفع ملنا شروع ہو گا تو نفع پر بھی زکوٰة کے احکام جاری ہوں گے ۔
پرائیویٹ کمپنیوں کا پراویڈنٹ فنڈ: ایک مستقل کمپنی کی تحویل میں دے دیا جاتا ہے ، جس میں ملازمین کا ایک نمائندہ ہوتا ہے ، یہ کمپنی چوں کہ ملازمین کی وکیل ہے ، لہٰذا کمپنی کا قبضہ ملازم کا قبضہ شمار ہو گا ، جس کی وجہ سے اس پر زکوٰة کے احکام جاری ہوں گے اور ہر سال کی زکوٰة ملازم کے ذمے واجب ہوتی رہے گی۔
پراویڈنٹ فنڈ اور میراث
جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ ” پراویڈنٹ فنڈ “ یا ”ڈی ایس پی فنڈ“ کی رقم ( چاہے جبری کٹوتی ہو یا اختیاری ) دراصل تنخواہ ہی کا ایک حصہ ہوتی ہے اور ملازم کی زندگی ہی میں یہ فنڈ ملازم کی ملکیت میں تھا او رملازم اپنی زندگی میں ریٹائر منٹ کے بعد یا ملازم کے فوت ہونے کے بعد اس کے پسماند گان بہرحال اس کے وصول کرنے کے حق دار ہوتے ہیں، لہٰذا ”پراویڈنٹ فنڈ“ یا ” ڈی ایس پی فنڈ“ میں میراث جاری ہو گی اور یہ رقم ملازم کے ترکہ میں شامل ہو کر تمام ورثاء پر اصولِ میراث کے مطابق تقسیم ہو گی، کسی ایک کا اس پر قبضہ جمالینا صحیح نہیں ہو گا۔
پنشن او رگویجویٹی (Pension and Gratuity)
جب بھی کوئی ملازم کسی محکمے سے ریٹائر ہوتا ہے یا دورانِ ملازمت اس کا انتقال ہو جاتا ہے تو بعض محکمے اس کو گریجویٹی اور پنشن کے نام سے کچھ رقم دیتے ہیں ، یہ رقم تنخواہ کا حصہ نہیں ہوتی بلکہ یہ انعام وعطیہ ہوتا ہے جو اس محکمے کی طرف سے ملازم کو دیا جاتا ہے ، اس کا مقصد ملازم کی خدمت کا اعتراف او راس کی مالی مدد ہوتا ہے، پنشن اور گریجویٹی کی رقم کا تعین ، مدتِ ملازمت، گریڈ اور تنخواہ کے اعتبار سے کیا جاتا ہے ، اس انعام میں جو رقم ملازم کو دی جاتی ہے ، وہ ریٹائر منٹ کے وقت ہی سے دو حصوں میں تقسیم کر دی جاتی ہے، اس میں سے نصف رقم فوراً ہی ملازم کو دے دی جاتی ہے ، جسے ” گریجویٹی“ کہا جاتا ہے او ربقیہ نصف رقم ملازم یا اس کے ورثاء کو ماہ بماہ ملتی رہتی ہے جس کو ” پنشن“ کہا جاتا ہے۔
جیساکہ محترم حفیظ الرحمن اپنی کتاب (Procedure and Law of Gratuity) میں لکھتے ہیں:
Gratuity and Pension if we go by the diction meaning , then of course gratuity appears to be a payment in the nature of gift, or reward paid to the employee by his employers in appreciation of his long and meritorious s service , but in view of the modern nation of fair industrial relations claim for gratuity is a Statutory right. It is to behind in view of the service rendered in the post.
Al thought gratuity is periodically, as long as pensioner is alive. However, the quantum of gratuity like pension bears relation to the length of the pensioners and armaments drawn by him while in service. But the payment on account of gratuity and pension are tatiral benefits the difference is that while gratuity is paid only once are realignment pension is payable periodically during that life time of retired employee.
(Union of India and others all India service pension associate air 19988 sc.501-1998 (2) scc 580,1988 (2)2 LLj196, 1988 (1) SLR353) (Published by ideal labour laws. Karachi-1988, P.6)
چوں کہ حکومتی قواعد وضوابط کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رقم انعام وعطیہ ہے، لہٰذا شرعی اعتبار سے ملازم کا اس کو لینا جائز ہے او رجہاں تک تعلق ہے زکوٰة کا تو پنشن او رگریجویٹی کی رقم جو یکمشت ملازم کو ملتی ہے اس پر گزشتہ سالوں کی زکوٰة نہیں ہو گی، البتہ آئندہ فرضیت زکوٰة کے متعلق تفصیل ”پراویڈنٹ فنڈ“ کے تحت دیکھ لی جائے۔
پنشن اور گریجویٹی میں میراث جاری ہونے کی تفصیل یہ ہے : کہ ملازم کی زندگی میں پنشن کی جونصف رقم گریجویٹی کے نام سے ملازم کے قبضہ میں آجاتی ہے اس میں ملازم کے انتقال کے بعد وارثت جاری ہو گی اور سب ورثہ میں وہ رقم بقدرِ حصص تقسیم ہو گی۔
اور پنشن جو ماہانہ ملتی ہے، جب تک وصول نہ ہو جائے ، ملازم کی ملکیت میں داخل نہیں ہوتی ، لہٰذا پنشن کی جو رقم ملازم اپنی زندگی میں ماہ بماہ وصول کر لے گا وہ بھی ملازم کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں شمار ہو گی، اورجتنی رقم اس کی موت کے بعد وصول ہو وہ ترکہ میں شمار نہ ہو گی ، کیوں کہ ترکہ وہ مال یا مالی حق ہے جو موت کے وقت مرنے والے کی ملکیت میں ہو (چاہے اس پر قبضہ ہو یا نہ ہو ) اور اس میں سے کسی متعین چیز پر کسی دوسرے کا حق نہ ہو ، جب کہ یہ رقم اس کی وفات تک اس کی ملکیت میں نہیں آئی تھی ، اس لیے اس پر میراث کے احکام جاری نہیں ہوں گے ۔
البتہ حکومت یا وہ ادارہ جس کی جانب سے پنشن ملی ہے، جس کو یہ رقم دے دے وہی اس کا مالک ہو گا یا ملازم نے اپنی فیملی میں سے جس فرد کو نامزد (Nominate) کیا ہو وہ اس کا مالک ہو گا اور اگر حکومت یا ادارہ سب وارثوں کے لیے دے تو سب وارث اس میں شریک ہوں گے لیکن یہ تقسیم ، میراث کی وجہ سے نہیں ہو گی ، بلکہ یہ حکومت یا ادارہ کی طرف سے ان کو انعام دینا شمار ہو گا۔
بینو ولنٹ فنڈ(Benevolent Fund)
یہ فنڈ سرکاری ملازمین کی بہبود کے لیے قائم کیا گیا ہے اس فنڈ کے لیے ہر ماہ کچھ رقم سرکاری ملازمین کی لازماً کاٹی جاتی ہے ، البتہ بعض نہیں بھی کٹواتے او رجو کٹواتے ہیں وہ اسے عطیہ اور چندہ سمجھ کر کٹواتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس رقم کو جو ملازم سے وصول کی جاتی ہے چندے کا نام دیا گیا ہے ۔
اگر کوئی ملازم اپنی مدتِ ملازمت کے دوران جسمانی یا ذہنی طور پر اپنے فرائض انجام دینے سے بالکل معذور ہو جائے تو وہ دس سال تک یا اپنی ریٹائر منٹ کی عمر کو پہنچنے تک ( ان میں سے جو پہلے ہو ) شیڈول میں دی گئی شرح کے مطابق ماہانہ رقم ” بینو ولنٹ فنڈ“ سے وصول کر سکتا ہے ، یا کوئی ملازم اپنی مدتِ ملازمت کے دوران ( یعنی ریٹائر ہونے سے پہلے یا 65 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے) انتقال کر جائے تو اس کی فیملی میں سے اس کی اولاد ، بیوی، والدین یا نابالغ بھائی اس فنڈ کے لینے کے حق دار ہوتے ہیں ، اگر ان میں سے کوئی بھی نہ ہو تو مرحوم کی غیر شادی شدہ ، مطلقہ یا بیوہ بہن کو اس فنڈ کی رقم دی جاتی ہے بصورت دیگراس فنڈ کی رقم کسی کو بھی نہیں ملتی۔
ملازم کی وہ فیملی جو بینو ولنٹ فنڈ وصول کرنے کی حق دار ہے اس کی تعریف ” دی بینو ولنٹ فنڈ اینڈ گروپ انشورنس“ ایکٹ1969 کی دفعہ(2)شق(5) میں اس طرح کی گئی ہے:
(5) Family means….
(a) in the case of a male employee , the wife or wieves , and in the case of a female employee, the husband of the employee and (b) the legitimate children, parents, minor brothers, unmarried , divorced or widowed sisters of the employee residing iwht and wholly dependent upon him.
بہرحال ملازم کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی فیملی کے افراد میں سے کسی فرد یا افراد کو اس رقم کی وصول یابی کے لیے نامزد کر دے او راگر وہ چاہے توایک سے زیادہ افراد کو نامزد کرنے کی صورت میں ان کو دیے جانے والے حصص کا تعین بھی کر سکتا ہے ، جہاں ملازم نے اپنی فیملی کے کسی فرد کو بھی اس طرح نامزد نہ کیا ہو ، وہاں ” بینو ولنٹ فنڈ“ کی وصول یابی کے لیے فیملی کے کسی بھی فردیا افراد کو حکومت کی طرف سے مقرر کیا جاسکتا ہے ، بشرطیکہ اس بات کااطمینان کر لیا گیا ہو کہ دی گئی رقم فیملی کے تمام ارکان کے اخراجات اور فائدے کے لیے انصاف کے ساتھ استعمال ہو گی۔
نیز اگر کسی ملازم نے اپنی تنخواہ کا متعین حصہ کٹواکر اس فنڈ میں جمع نہ کیا ہو ،تب بھی وہ اس فنڈ کے لینے کا مستحق ہوتا ہے ، البتہ اس فنڈ سے اتنی رقم کم کی جاسکتی ہے جتنی اس نے چندے کے طور پر ادا نہیں کی۔
” بینوولنٹ فنڈ“ کی مذکورہ بالا تفصیلات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اس میں شرعاً میراث جار ی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ملازم کے انتقال کی صورت میں اس کی فیملی کو ملنے والی یہ رقم نہ توایسے مال کی تعریف میں آتی ہے جو مرتے وقت ملازم کی ملکیت میں ہو اور نہ یہ کوئی ایسا مالی حق ہے ، جو حکومت کے ذمے لازماً ملازم کی زندگی میں واجب الأداء ہو چوں کہ قابلِ وارثت وہ مال یا مالی حق ہے جو موت کے وقت مرنے والے کی ملکیت میں ہو ( چاہے اس پر قبضہ ہو یا نہ ہو ) او راس میں سے کسی متعین چیز پر کسی دوسرے کا حق نہ ہو ۔
جب کہ اگر ملازم زندہ رہتا وہ صرف اس وقت اس فنڈ کا حق دار ہوتا ، جب وہ ریٹائر ہونے سے پہلے اپنی جسمانی یا ذہنی معذوری کے سبب ملازمت سے برخاست کر دیا جاتا ۔
اور اگر کوئی ملازم اپنی ریٹائر منٹ کی عمر کو پہنچ کر ریٹائر ہو ا ہو تو وہ اس فنڈ سے کسی بھی صورت میں کوئی پیسہ وصول نہیں کر سکتا اور نہ ہی ریٹائر منٹ کے بعد انتقال کی صورت میں اس کی فیملی کو اس فنڈ سے رقم مل سکتی ہے۔
یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ فنڈ ملازم کا کوئی ایسا حق نہیں کہ حکومت کے ذمے قرض کی طرح لازمی طور پر واجب الأداء ہو،بلکہ یہ ایک بہبود فنڈ ہے جس سے بطور عطیہ بعض صورتوں میں ملازم کو او ربعض صورتوں میں اس کی فیملی کو مہیا کیا جاتا ہے ، لہٰذا شرعاً اس فنڈ پر میراث کے احکام جاری نہیں ہوں گے اور یہ فنڈترکہ میں شامل نہیں ہو گا ، بلکہ حکومت جس کو دے گی وہی اس کا مالک ہو گا۔
گروپ انشورنس(Grop Insurance)
یہ رقم ملازم کی تنخواہ سے لازماً کاٹی جاتی ہے اور ملازم کی فیملی کو یہ رقم ملازم کے دورانِ ملازمت انتقال کی صورت میں یا ریٹائر ہونے کے بعد انتقال کی صورت میں ہر حال میں ملتی ہے اوریہ رقم یکمشت دی جاتی ہے، اگر ملازم کسی وجہ سے یہ رقم نہ کٹوائے تب بھی اس کی فیملی گروپ انشورنس کی رقم لینے کی حق دار ہوتی ہے ، البتہ جتنا پریمیم ( زرِ پیشگی ) ملازم کے ذمے واجب الأداء رہ گیا ، وہ گروپ انشورنس کی رقم سے کاٹ لیا جاتا ہے۔
چوں کہ گروپ انشورنس ،مرحوم کی فیملی کے ساتھ ایک امدادی تعاون ہے ، لہٰذا اگر حکومت (محکمہ ، ادارہ ، کمپنی) اپنے خزانہ میں شامل کرکے یہ رقم دے تو مرحوم کے پسماند گان ( فیملی) کے لیے اس کا لینا جائز ہے او راگر کسی انشورنس کمپنی سے براہِ راست وصول کرنی پڑے تو اس صورت میں اتنی رقم وصول کرنا جائز ہے جتنی حکومت نے پریمیم (زرِ پیشگی) کے طور پر انشورنس کمپنی کو ادا کی، اس سے زائد رقم لینا جائز نہیں ، اگر غلطی سے لے لی ہے تو اس کا بلانیتِ ثواب صدقہ کرنا واجب ہے۔
نیز یہ کوئی ایسی رقم نہیں جس کا ملازم اپنی زندگی میں حق دار ہو گیا ہو اور اسے اپنی زندگی میں وصول کر سکتا ہو ، بلکہ یہ رقم بھی ملازم کے پسماندگان کے ساتھ بطور عطیہ امدادی تعاون ہے، لہٰذا یہ رقم ملازم کے ترکہ میں شامل نہیں ہو گی، البتہ ملازم کی تنخواہ سے جتنی رقم پریمیم (زرِپیشگی) کے طور پر کاٹی گئی ہے وہ رقم ترکہ میں شامل ہو گی اور اس سے زائد ملنے والی رقم پر وراثت کے احکام جاری نہیں ہوں گے ، بلکہ حکومت جس کو دے دے گی وہی اس کا مالک ہو گا اور حکومت اگرمرحوم کے تمام ورثاء کو بقدر حصص تقسیم کرکے دینا چاہے تو اس کا بھی اس کو اختیار ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی