کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ جیب میں ایک ہزارروپےکا (پاکستانی ) نوٹ تھا،بارش کی وجہ سےاس پررنگ چڑھ گیا،اب دوکانداراس کوقبول نہیں کرتے،اسٹیٹ بینک والوں کےپاس لےجاؤں توہ کہتےہیں کہ دوسوروپےکٹوتی ہوگی،پھراس نوٹ کوہم تبدیل کرکے دیں گے،یااس نوٹ کوازسرنوچھاپ کرآپ کودیں گے۔
اب پوچھنایہ ہےکہ ہزارروپےکےبدلےوہ مجھےآٹھ سوروپے دیں گے،کیایہ معاملہ سود کےزمرے میں تونہیں آئےگا؟فقہائےاحناف کی تحقیقات کی روشنی میں شرعی حکم واضح فرمائیں۔جزاک اللہ خیراً۔ تنقیح : بینک والے نوٹ چھاپنےپردوسوروپےکٹوتی کرتےہیں۔
واضح رہےکہ ایک ملک کی کرنسی کاتبادلہ اسی ملک کی کرنسی کےساتھ کمی بیشی کےساتھ جائزنہیں،بلکہ دونوں کےدرمیان برابری ضروری ہے؛لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ ایک ہزارروپےکے نوٹ کا تبادلہ آٹھ سوروپے کےساتھ کرنا،یااسی طرح اسٹیٹ بینک کااس نوٹ کوازسرنوچھاپ دینے کی صورت میں دوسوروپے کٹوتی کرنا اوراس کےبدلےمیں آٹھ سوروپےدیناسود کےزمرے میں آتاہے جوکہ شرعاً ناجائز اورحرام ہے۔
لمافي "الدرمع الرد":
"(وجيدمال الربا)لاحقوق العباد(ورديئه سواء).وقال العلامة ابن عابدين تـحت قوله:(وجيد مال الربا ورديئه سواء) أي:فلا يجوز بيع الجيد بالرديء مما فيه الربا إلا مثلا بمثل لإهدار التفاوت في الوصف هداية".(كتاب البيوع،مطلب: في استقراض الدراهم عددًا:7/431،ط:رشيدية)
وفي "بدائع الصنائع":
"الجودة في الأموال الربوية لا قيمة لها عند مقابلتها بجنسها؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم: «جيدها ورديئها سواء».(كتاب الزكاة،فصل فيمايرجع إلى المؤدي:2/461،ط: رشيدية)
وفي "الإختيارللتعليل المختار":
"(وجيــد مال الربا ورديئــــه عند المقابلة بجنسه سواء)لقوله-عليه الصــلاة والسلام: «جيــدها ورديئهــا سواء» ولأن في اعتباره سد باب البياعات فيلغو".(كتاب البيوع ،باب الربا:2/32،ط:دارالكتب العلمية ـ بيروت).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 175/84