کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے ایک حاجی صاحب کو رقم دی کہ فلاں پلاٹ جو میری زمین کے ساتھ متصل ہے اسے میرے لیے خرید لیں، لیکن حاجی صاحب نے ان پیسوں میں زید کی اجازت کے بغیر تصرف کی ااس طور کہ زیس کے پیسوں سے حاجی صاحب نے دو پلا ٹ خرید لیے ، ایک فٹ ۷۲۰ کے حساب سے ، اور پلاٹ حاجی صاحب نے اپنے لیے خریدا اور دوسرا زید کے لیے ، پھر اپنا والا پلاٹ بھی زید پر قسطوں کے ساتھ فروخت کیا ۱۳۰۰ روپے فٹ کے حساب سے ، اب زید حاجی صاحب سے کہا کہ دیکھو آپ نے میرے پیسوں کو ایڈوانس میں دے کر اپنے لیے بھی پلاٹ خریدا ، پھر مجھ پر بھاری قیمت کے ساتھ فروخت کیا ، گویا آپ کو پلاٹ مفت میں پڑا ، لہذا آپ میرے ساتھ رواداری کریں کہ جتنا منافع کے ساتھ مجھ پر پلاٹ فروخت کیا ہے، کم ازکم اس کا آدھا مجھ پر چھوڑ دیں ، آپ حضرات شرعی طور پر رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ
صورت مسئولہ میں حاجی صاحب نے زید کے پیسوں کو اپنے لئے پلاٹ خریدنے میں استعمال کرنا جائز نہیں تھا،اگرچہ وہ اس پلاٹ کے مالک بن گئے،اس لئے اس خریدنے میں جو رقم زید کی حاجی صاحب نے استعمال کی ہے،وہ رقم حاجی صاحب پر ضمان تھی، اب چونکہ وہ رقم حاجی صاحب نے زید کو واپس کردی ہے۔
لہذا زید کا یہ کہنا کہ(ابھی میرے ساتھ رواداری کرکے جتنے منافع کے ساتھ وہ پلاٹ مجھ پر فروخت کیا ہے،اس کا کم از کم آدھا مجھےچھوڑدو)تو یہ درست نہیں،اور مذکورہ پلاٹ حاجی صاحب کی ملکیت ہے،اب حاجی صاحب جیسے چاہے ،جتنے میں زید پر فروخت کرنا چاہے ،تو فروخت کرسکتا ہے،البتہ اگر حاجی صاحب رواداری سے کام لےکر زید کے لئے کچھ پیسے کم کرنا چاہے،تو کم کرسکتا ہے۔
لما في التنوير مع الدر:
التوكيل صحيح بالكتاب والسنة،قال تعالى:فابعثوا أحدكم بورقكم ووكل عليه الصلاة والسلام حكيم بن حزام بشراء ضحية وعليه الإجماع....... (وكله بشراء ثوب هروي أو فرس أو بغل صح) بما يحتمله حال الآمر.زيلعي فراجعه (وإن لم يسم) ثمنا لانه من القسم الاول (وبشراء دار أو عبد جاز إن سمى) الموكل (ثمنا يخصص) نوعا أو لا.بحر (أو نوعا كحبشي) زاد في البزازية: أو قدرا ككذا قفيزا (وإلا) يسم ذلك (لا) يصح وألحق بجهالة الجنس (و) هي ما لو وكله (بشراء ثوب أو دابة لا) يصح وإن سمى ثمنا للجهالة الفاحشة(وبشراء طعام وبين قدره أو دفع ثمنه وقع) في عرفنا (على المعتاد) المهيأ (للأكل) من كل مطعوم يمكن أكله بلا إدام (كلحم مطبوخ أو مشوي) وبه قالت الثلاثة، وبه يفتى.عيني وغيره.اعتبارا للعرف كما في اليمين (وفي الوصية له) أي لشخص (بطعام يدخل كل مطعوم) ولو دواء به حلاوة كسكنجبين.(كتاب الوكالة، باب الوكالة بالبيع والشراء 8 /273ـ285،ط:رشيدية).
وفي البحر الرائق:
وذكر الشارح أنه إذا نقدمن مال الموكل فيما اشتراه لنفسه يجب عليه الضمان وهو ظاهر في أن قضاء الدين بمال الغير صحيح موجب لبراءة الدافع موجب للضمان وقد ذكر الشارح في بيع الفضولي أن من قضى دينه بمال الغير صار مستقرضا في ضمن القضاء فيضمن مثله إن كان مثليا وقيمته إن كان قيميا.وفي منظومة ابن وهبان:وكيل قضى بالمال دينا لنفسه،يضمن ما يقضيه عنه ويهدر.(كتاب الوكالة،باب الوكالة بالبيع والشراء،7/271،272،ط:رشيدية). فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 174/302