کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے ایک جگہ میں پندرہ (15)دن سے زیادہ وقت گزارا ہے ، اب وہ آدمی یہاں سے ایسے سفر پر چلاگیا جو شرعی سفر بن جاتاہے ، اب پوچھنا یہ ہے کہ جب وہ آدمی سفر سےواپس آجائے تو وہ اب وطن اقامت (جہاں اس نے پندرہ دن سے زیادہ وقت گزارا ہے)میں پوری نماز پڑھے گا یا قصر کرے گا ؟ اسی طرح وہ امام بن سکتا ہے یا نہیں ؟ ہمارے ہاں دو علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے ، ایک مفتی صاحب کا کہناہے بہتر یہ ہے کہ وہ امامت نہ کرائیں ، جبکہ دوسرے عالم صاحب کا کہناہے وہ امام بن سکتا ہے اس میں کوئی خرا بی نہیں ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دے کر ممنون فرمائیں ۔
وطن اقامت سے محض سفر کرنا مبطل نہیں ،بلکہ دراصل سفربقصد الارتحال مبطل ہے ،یعنی یہ بطلان اس وقت ہوگا جب کہ وطن اقامت سے بنیت سفر جاتے وقت اپنا سامان وغیرہ بھی ہمراہ لے جائے جس سے یہ سمجھا جائے کہ مذکورہ شخص کا ارادہ فی الحال یہاں واپس آنے کا نہیں ہے ، صورت مسئولہ میں چونکہ مذکورہ شخص نے سفر بقصد الارتحال نہیں کیا ہے ، لہذا سفر سے واپسی کے بعد یہ جگہ وطن اقامت ہی رہے گی جس میں اتمام (پوری نماز ) پڑھنا ضروری ہے ،اوران کے امام بننےکی بھی گنجائش ہے ،اگرچہ بہتر یہ ہے کہ امام نہ بنے ۔
لما في مجمع الأنهر:
كوطن الاقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع اخر .(كتاب الصلاة ،باب المسافر ،1/243،ط:الغفارية )
وفي البحر:
ولو كان له أهل بالكوفة، وأهل بالبصرة، فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لا تبقى وطنا له ؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له ، وقيل: تبقى
وطنا له ،لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا ،فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع اخر.(كتاب الصلاة ، باب المسافر ،2/239،ط:رشيدية)
وفي البدائع :
وأما بيان ما يصير المسافر به مقيما ،فالمسافر يصير مقيما بوجود الاقامة، والاقامة تثبت بأربعة أشياء :أحدها صريح نية الإقامة ،وهو أن ينوى الإقامة خمسة عشر يوما في مكان واحد صالح للاقامة ،فلا بد من أربعة أشياء :الإقامة ونية مدة الإقامة واتحاد المكان وصلاحيته للإقامة.(كتاب الصلاة ، فصل في بيان مايصير المسافر به مقيما،2/268،ط:رشيدية)
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 172/92