کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا نام …ہے اور میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد کا سائن بورڈ کاکاروبار ہے، جس میں میں ان کے ساتھ ہوتا ہوں اور اس میں پیسوں کی لین دین ہوتی رہتی ہے ، میرے والد جس شخص سے پیسے ادھارلیتے ہیں، وہ انہیں سود پر پیسے دیتا ہے اور میں نے اپنے والد کو بہت سمجھایا ہے کہ یہ غلط ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں مجبور ہوں، کیا کروں؟
میں الگ ہو جاؤں ان سے تو کیا یہ نافرمانی میں تو نہیں آئے گا؟ میں ابھی بھی انہیں سمجھانا چاہتا ہوں، اس بارے میں آپ سے عرض کر رہا ہوں، آپ راہ نمائی کریں اور اگر میں اس معاملے میں ان سے اونچی آواز میں بات کر لوں تو میں غلط تو نہیں؟
واضح رہے کہ سود کالینا اور دینا دونوں شرعاً ناجائز ہیں، قرآن کریم اور احادیث میں سود سے متعلق سخت قسم کی وعیدیں آئی ہیں،لہٰذا صورت مسئولہ میں سائل کے والد صاحب کو چاہیے کہ سودی قرض کے لینے سے اجتناب کرے اور جو ہوا ہے اس پر توبہ واستغفار کرے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے ( جس کے سچے ہونے میں دو رائے نہیں) کہ :”اگر تم میں سے کسی کے رزق کے پہنچنے میں تاخیر ہو جائے تو اس رزق کو الله رب العزت کی نافرمانی کرکے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے، اس لیے کہ الله تعالیٰ کے فضل کو نافرمانی کرکے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔“ جس ذات کے قبضے میں رزق کے خزانے ہیں، وہ اپنے فرماں برداروں کو ہر گز ہر گز محروم نہیں کرے گی!!
البتہ یہ بات پیش نظر رہے کہ سود پر جو قرضہ لیا گیا ہے تو قرضہ لینے والے کے لیے وہ قرضہ اور اس سے جو آمدنی ہو گی، وہ شرعاً کراہت کے ساتھ حلال ہو گی۔
باقی سائل کو چاہیے کہ اپنے والد کے ادب کی رعایت کرتے ہوئے محبت بھرے انداز میں انہیں سود کی شناعت اور اس گناہ کی سنگینی کا احساس دلائے، قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں سود سے متعلق جو وعیدیں آئی ہیں، وہ ان کے سامنے رکھے، ان کے سامنے شرعی بات رکھنے کے بعد سائل کا ذمہ بری ہو جائے گا، اگر والد صاحب بات مان لیں تو بہت اچھا، وگرنہ بار بار سائل اصرار نہ کرے، بلکہ ان کے لیے الله تعالیٰ سے استغفار کرے اور ان کی ہدایت کی دعا کرے، جس صورت میں والد سود دینا نہیں چھوڑتے تو سائل ان کے کاروبار سے الگ ہو سکتا ہے، البتہ گھر میں علیحدگی نہ کرے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی