والد اور اولاد کا ایک دوسرے سے قطع تعلق کرنے کا حکم

Darul Ifta mix

والد اور اولاد کا ایک دوسرے سے قطع تعلق کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں:
میری ساس کا انتقال ہوا اور پانچ بچے چھوڑے جن میں چھوٹی بچی غیر شادی شدہ ہے، وفات کے دو سال بعد تک بھی اس کی شادی میں تاخیر ہوئی، اسی دوران میرے سسر نے دوسری شادی کی خواہش اپنے بچوں کے سامنے ظاہر کی، لیکن بچوں نے مخالفت کی کہ پہلے ہماری چھوٹی بہن کی شادی کروا دو پھر جو کرنا ہے کرو بہرحال سسر نے شادی کر لی اور بچے مکمل مخالف ہو گئے، تعلقات ختم کر دیے اور دوسرے گھر کی تلاش میں ہیں البتہ سسر کی شادی کے بعد چھوٹی سالی کی بات طے ہو گئی مگر والدنے اپنے بچوں کی خود سری کی وجہ سے ان کے تمام معاملات سے کنارہ کشی اختیار کر لی ،لہٰذا سالی کی شادی خاندان والوں نے کروائی، ان حالات کے پیش نظر چند سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔

اگرجوان بچی گھر پر ہو تو باپ دوسری شادی کرسکتا ہے ؟ اور دوسری شادی کی وجہ سے کیا اولاد کا باپ اور سوتیلی ماں کو چھوڑنا عندالله قابل مواخذہ جرم ہے؟

جب باپ نے دوسری شادی کر لی تو بچوں کا باپ کوچھوڑنا اور سوتیلی ماں سے تعلق نہ رکھنا او ربُرے القابات سے پکارنا کیسا ہے اور بچوں کی اس نافرمانی پر باپ کا بچوں سے لاتعلق کرنا والد کے لیے جائز ہے یا نہیں؟

اپنی ماں کے انتقال کے بعد بچے اپنی ماں کے جہیز کا سامان باپ سے پوچھے بغیر لے جاسکتے ہیں یا نہیں؟ اسی طرح دیگر ضروری سامان والد کی اجازت کے بغیر لے جانے کی اجازت ہے یانہیں؟

کیا اس والد کی بیٹی جو شادی شدہ ہے ان کا اپنے شوہر سے کہنا کہ اب وہ بھی ہمارے والد سے کوئی تعلق نہ رکھے کس حدتک درست ہے؟

والد بچوں سے اس قدر ناراض ہو کہ بچوں کو اپنے جنازے میں شرکت سے منع کرے اور میت کو کندھا دینے سے بھی، کیا یہ عمل درست ہے یا نہیں؟

جواب 

واضح رہے کہ جوان بیٹی کی شادی کرانے کی ذمہ داری بھی اگرچہ باپ پر ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی شادی کرانے سے پہلے باپ کے لیے دوسری شادی کرنا بھی جائز اور درست ہے اور اس وجہ سے اولاد کا باپ کو چھوڑ کر ان سے تعلقات ختم کر دینا ناجائزاو رگناہ کبیرہ ہے۔

والد صاحب کا ادب واحترام کرنا او ران کے جائز مقاصد میں ان کے حکم کی تعمیل کرنا لازم اور ضروری ہے، ان کی نافرمانی او رگستاخی کرنا اور ان کو تکلیف دینا ناجائز اور سخت گناہ ہے ،تباہی وبربادی کا باعث ہے ، اسی طرح ان سے تعلقات ختم کرنا بھی ناجائز او رگنا ہے ، بڑی بدبختی اور بدقسمتی ہے ، لہٰذا صورت مذکورہ میں اولاد پر لازم اور ضروری ہے کہ وہ اپنے والد سے معافی مانگیں اور ان کو راضی کریں اور الله تعالیٰ سے بھی اپنے اس کیے پر توبہ واستغفار کریں ورنہ آخرت کا عذاب بہت سخت ہے اور دنیا میں بھی اس کے بھیانک نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ نیز والد صاحب اگر کبھی کوئی سخت بات کہہ دیں تو خاموشی اور صبر کرتے ہوئے اس کو برادشت کیا جائے او ران کو جواب نہ دیا جائے او راگر ان کو کوئی بات سمجھانی ہو تو ادب واحترام کے ساتھ نرم لہجے میں سمجھائی جائے، تلخ کلامی اور تُرش روئی سے مکمل اجتناب کیا جائے۔

اولاد کی نافرمانی او رگستاخی پر والد کے لیے بطور اصلاح ان سے قطع تعلقی کرنا جائز ہے ، لیکن جب وہ اس سے باز آجائیں اور معذرت کریں ، تو یہ قطع تعلقی ختم کر دینی چاہیے۔

ماں کا مکمل ترکہ وجہیز وغیرہ جتنا ہے اس میں سے تجہیز وتکفین کا درمیانی خرچ نکالنے کے بعد اورقرضے(اگرہیں) تو ان کی ادائیگی کے بعد بقیہ ترکہ کے ایک تہائی حصے سے جائز وصیت (اگر کی ہے) پوری کرنے کے بعد بقیہ ترکہ کو ماں کے تمام ورثاء پر ان کی شرعی حصص کے مطابق تقسیم کرنا لازم ہے ، باپ اور دیگر ورثاء کا جتنا حصہ بنتا ہے وہ ان کو دینا ضروری ہے ، کسی ایک وارث کو اس کا حصہ نہ دینا ظلم اور سخت گناہ ہے ۔ نیز دیگر ضروری سامان جو باپ کی ملکیت ہیں ، ان کے اجازت کے بغیر اس کو لے جانا جائز نہیں ہے۔

بیوی کا شوہر کو یہ کہنا جائز نہیں ہے، لہٰذا شوہر کو چاہیے کہ وہ ان سے اسی طرح تعلقات رکھے جس طرح پہلے رکھتا تھا۔

واضح رہے کہ والد صاحب کا ناراض ہو کر اولاد کو اپنے جنازے میں شرکت کرنے اور میت کو کندھا دینے سے منع کرنا صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ یہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر شریعت کی طرف سے مقرر کردہ حقوق ہیں جن کے ساقط کرنے کا بندے کو اختیار نہیں ہے ، لہٰذا باپ کے منع کرنے کے باوجود بیٹوں کے لیے جنازے میں شرکت کرنا اور میت کو کندھا دینا جائز ہے ۔ تاہم والد صاحب کا اس سے منع کرنا ان کی انتہائی ناراضگی اور خفگی پر دلالت کرتا ہے جو کہ اولاد کے لیے نہایت خطرناک ہے، اس لیے ان پر لازم ہے کہ وہ فوراً والد صاحب سے معافی مانگ کر ان کو راضی کریں اور آئندہ ایسا موقع ہر گز نہ آنے دیں۔

الله تعالیٰ ہمیں شرعی احکام پر مکمل عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی