کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا بیٹا شادی کے بعد سے بہت نافرمان ہوگیا ہے ، میرا کوئی کہنا ہی نہیں مانتا ، مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس کی بیوی اس کو بہکاتی ہے،جیسے حال ہی میں کچھ مسئلے ہوئے ،بہو کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اسی دوران بیٹے کی بھی طبیعت خراب تھی، تو میں نے کہا کہ میں بہو کی ذمہ داری نہیں سنبھال سکتی، تم اس کو اس کے گھر چھوڑ کر آؤ، تو اس بات پر بیٹا غصہ ہوگیا اور کہا کہ یہ میری ذمہ داری ہے، میں اس کو وہاں نہیں چھوڑ سکتا، جس پر مجھے بھی غصہ آگیا کہ میرا کہنا نہیں سن رہا۔
دوسری بات یہ کہ بہو سلائی سیکھنے جاتی ہے ہفتہ میں تین دن ڈھائی سے پانچ بجے تک،تواس بات پر میں نے بیٹے کو کہا کہ وہ سلائی نہیں سیکھے گی، تمھاری بہن بھی سیکھ رہی ہے وہ اس کو سکھادے گی جس پر بیٹے نے کہا کہ وہ میری مرضی سے سیکھ رہی ہے اور اس کو خود بھی ذوق و شوق ہے، میں نہیں چھڑوا سکتا، یہاں پر بھی اس نے میرا کہنا نہیں مانا۔
تیسری بات یہ کہ بہو جب بھیکہیں قریبی رشتہ داروں کے ہاں جاتی ہے تو الماری کی چابیاں نکال لیتی ہے جس میں اس کے زیور ، کپڑے اور اس کا بیوٹی باکس کا سامان ہے، اور جب دور جاتی ہے تو کمرے کو تالا لگا دیتی ہے، اس بات پر میں نے کہا کہ کیا ہم چور ہیں جو اتنی حفاظت ہوتی ہے اور ہم پر ذرا برابر بھی بھروسہ نہیں، تو اس پر بہو اور بیٹا جواب دیتے ہیں کہ اس میں مسئلہ کیا ہے؟ بیٹا کہتا ہے امی! یہ اس کی ملکیت ہے وہ جو چاہے کرے،اس کو نہیں روک سکتے اور اس کو یہ حق شریعت بھی دیتی ہے کہ وہ اپنے سامان کی حفاظت کرے۔
چوتھا یہ کہ بہو کو اس کے گھر سے ایک عادت لگی ہوئی ہے ،وہ کہتی ہے کہ بچپن سے ان کے والد صاحب نے ان کو یہ عادت لگوائی ہے اور وہ یہ کہ دوپہر کو سوجانا ، جب کہ میرے گھر کا ماحول ایسا نہیں اور نہ میں کسی کو سونے دیتی ہوں، اس پر جب میں کہتی، تو بیٹا کہتا ہے کہ امی میں خود آفس میں تھوڑی دیر لیٹ جاتا ہوں،کیوں کہ اس سے ذہن فریش ہوجاتا ہے، ہمارے ساتھ تو ایسا معاملہ نہیں ۔
ان تمام مسائل کا کیا حل ہے؟ اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں کیا ہدایات جاری کی ہیں؟ اس پر روشنی ڈال دیں۔ جزاکم اللہ خیراً
واضح رہے کہ والدین کی نافرمانی یقینا گناہ ِ کبیرہ اور بہت بڑا جرم ہے، قرآن کریم میں والدین سے حسن سلوک اور نیکی کرنے کا بار بار حکم ہے، احادیث مبارکہ میں والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہوں میں سے شمار کی گئی ہے۔
البتہ سوال میں جو مذکور ہے وہ آپ کے بیٹے کی طرف سے نافرمانی نہیں ہے، بلکہ مصلحت کا بھی یہی تقاضا ہے، کیوں کہ ازدواجی زندگی میں بہت سے امور ایسے ہیں جو میاں بیوی پر قانوناً لازم نہیں ہوتے، لیکن اخلاقاً انہیں اختیار کیا جاتا ہے ، بہو کے بیمار ہونے کی حالت میں آپ پر اپنی بہو کو سنبھالنا اور تیمارداری شرعاًواجب اور ضروری تو نہیں ہے لیکن اگر آپ کی طرف سے ممکن ہو تو اس کی تیمارداری کریں اور بہو کو بھی چاہیے کہ وہ بھی ایسے موقع پر آپ کی تیمار داری او رخدمت کرے، یہ سب اخلاقیات میں سے ہے، گھر کا ماحول خوش گوار اور پرسکون رکھنے کے لیے بہو اپنی ساس اور سسر سے ویسے ہی عزت واحترام اور ادب سے پیش آئے جیسے اپنے والدین کے ساتھ پیش آتی ہے اور ساس ، سسر بھی بہو کو اپنی بیٹی کی طرح عزت ومقام دیں اور آپس میں ایک دوسرے کی جائز ضروریات کاخیال رکھیں، باقی آپ کی بہو کا الماریوں کو تالا لگانا، سلائی سیکھنے کے لیے جانا اور دوپہر کو سونا، یہ تمام اس کے ذاتی معاملات ہیں، اولاً نرمی سے روک دیا جائے، وگرنہ یہ کوئی ایسے امور نہیں ہیں جو خلاف شرع ہونے کی وجہ سے ممنوع ہوں، بلکہ ان کی اجازت ہے، لہٰذا زیادہ سختی کرنے سے گریز کیا جائے۔
معمولی باتوں پر جھگڑا نہ صرف یہ کہ آپس میں اختلافاات کو پیدا کرتا ہے، بلکہ گھر کے ماحول کو بھی ناخوش گوار بنا دیتا ہے، اس لیے اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی