کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ڈیڑھ سال قبل زید کی شادی اپنی چچا زاد ہندہ کے ساتھ ہوئی تھی اور اب ایک بیٹا بھی ہے، زید نے جب اپنی بیوی کے موبائل میں کسی غیر شخص کی آواز سنی تو موبائل کی نگرانی شروع کرنے پر پتا چلا کہ ہندہ کو کسی غیر آدمی کے ساتھ عشق ہے اور ہندہ اس کے ساتھ فحش قسم کی گفت گو کرتی ہے اور فحش تصاویر بھیجتی ہے، پھر جب زید نے ہندہ کو تمام ثبوت پرنٹڈ صورت میں دکھائے تو ہندہ نے پاؤں پکڑ کر معافی مانگی اور قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میرے دل میں زید کے سوا کوئی بھی نہیں ہے، لیکن زید نے تین شرائط کے ساتھ معاف کیا:
1..زندگی بھر موبائل رکھوں گی ناہی مطالبہ کروں گی۔
2..اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاؤں گی۔
3..تمام اخلاقی او ر شرعی امور کی پابندی کروں گی۔
لیکن ہندہ نے کسی پابندی پرعمل نہیں کیا، موبائل کا مطالبہ اور استعمال بھی سامنے آیا او راپنے ماں باپ کے ساتھ زید کی اجازت کے بغیر اپنے عزیزوں کی طرف بھی چلی گئی او راپنے خاوند کے ساتھ اونچی آواز میں بات بھی کی، زید نے پہلے دن سمجھایا وہ مان گئی، لیکن اگلے دن موبائل کا مطالبہ کر دیا، پھر زید نے بستر دور کر لیا ،دو دن بعد جب زید کمرے میں گیا تو ہندہ گلے لگ گئی، زید نے دور ہٹایا تو قرآن لے آئے کہ اس پر یقین کر لو کہ میں اس لڑکے سے بات کرنے کے لیے موبائل نہیں مانگ رہی تو زید نے ہندہ کی پٹائی کر دی، اگلے دن ہندہ نے ساس سسر کو پٹائی کی شکایت لگا دی، سسر کو ہندہ کے کرتوتوں کا علم تھا اس لیے ہندہ کو ہی جھاڑ پلا دی، پھر دو دن بعد زید گھر آیا اور ہندہ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا، زید ہندہ کے کہنے پر باہر گھمانے بھی لے گیا، اگلے دن ہندہ کے ماں باپ آئے تو ہندہ نے موبائل لینے کا مطالبہ کیا اور ہندہ کے ماں باپ نے زید کی پٹائی کرنے پر اعتراض کیا۔
مندرجہ بالا صورت حال میں قابل استفتاء امور درج ذیل ہیں:
1..کیا زید والد کی مرضی کے خلاف طلاق دے سکتا ہے جب کہ والد کی طرف سے سخت قسم کی ناراضگی عین متوقع ہے؟
2..ہندہ کے والد کی طبیعت خراب ہے اگر انہیں طلاق کی وجہ سے کچھ ہو گیا تو کیا زید قصور وار ہو گا؟
3..اگر زید ان سب کے باوجود ہندہ کو اپنے پاس رکھنے پر راضی ہو جائے تو کیا عندالله ماجور ہو گا؟
4..چوں کہ یہ بات دونوں خاندانوں میں پھیل گئی ہے کیا یہ مسلمان کی پردہ دری اور ایذاء مسلم کے زمرے میں آتا ہے؟
5..علمائے حق کے نزدیک عزیمت کی راہ کیا ہے، جزاکم الله فی الدارین۔
اصل جواب سے پہلے چند اصولی باتیں ذہن نشین فرمائیں:
1..قرآن کریم میں نافرمان بیوی کو سدہارنے کے لیے یہ طریقہ کار بیان فرمایا گیا ہے کہ : پہلے اسے نصیحت کی جائے اور سمجھایا جائے، اگر اس سے اصلاح نہ ہو، تو بستر علیحدہ کیا جائے، اگر اس سے بھی فائدہ نہ ہو تو حدود کے اندر مارا جائے او راگر اس سے بھی کام نہ بنے تو میاں بیوی ( دونوں طرف) کے خاندانوں سے ایک ایک فیصلہ کرنے والا مقرر کیا جائے، وہ جو بھی فیصلہ کریں اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
2..فاحشہ بیوی کو طلاق دینا بہتر ہے، لیکن اگر کسی عذر کی بنا پر شوہر طلاق نہیں دے سکتا تو اس شرط کے ساتھ اپنے پاس رکھ سکتا ہے کہ اسے فحاشی سے روکے، اگر فحاشی سے روکنے پر قدرت نہیں تو پھر شوہرطلاق نہ دینے کی وجہ سے گناہ گار ہو گا۔
3..والدین کے ساتھ حسن سلوک، ان کی اطاعت اور ہر قسم کی ایذاء رسانی سے ان کو بچانا اولاد پر لازم ہے۔
4..اگر کسی بھی شخص کی اطاعت سے الله تعالیٰ کی معصیت لازم آتی ہو، تو ایسی اطاعت کرنا جائز نہیں۔
5..کامل مسلمان وہ ہے جس کے شر سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں۔
6..اگر شریعت کے کسی حکم پر اصول کے مطابق عمل کرنے سے کسی کو تکلیف پہنچتی ہے، تو ایسی تکلیف کا کوئی اعتبار نہیں۔
7..اگر کوئی جائز کام حرام کام کے لیے سبب بنتا ہو، تو شریعت ایسے جائز کام کرنے سے بھی روکتی ہے۔
8..اپنے حق کے حصول کے لیے یا دوسرے کی اصلاح کی غرض سے اصول کے مطابق اگر کسی کی پوشیدہ بات ظاہر کی جائے تو جائز ہے، جیسا کہ شریعت نے غیبت کی بعض صورتوں کو مستثنیٰ کیا ہے۔
9..حدیث شریف میں آتا ہے کہ عورتیں ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہوئی ہیں، لہٰذا بڑی احتیاط سے دیکھ بال ضروری ہے، ایسا نہ ہو کہ بالکل بے مہار چھوڑی جائیں کہ مزید ٹیڑھی ہو جائیں اور نہ ہی سیدھا کرنے میں اتنی سختی کی جائے کہ ٹوٹ جائیں۔
10..مذکورہ مسئلے کو قواعد وقوانین سے بڑھ کر پیار ومحبت سے دونوں کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے حل کیا جائے، کیوں کہ یہ محبتوں کا رشتہ ہے جو ضابطوں کے بجائے رابطوں سے نبھانا چاہیے۔ (تلک عشرة کاملة)
مذکورہ بالا اصول کی روشنی میں اصل سوالوں کے جوابات نمبر وار ملاحظہ فرمائیں:
1..صورت مسئولہ میں اگر زید کو قدرت ہے کہ ہندہ کو فحاشی سے روکے تو والد کی مرضی کے خلاف طلاق نہ دے، ورنہ دے سکتا ہے۔
2..سب کچھ کرنے کے باوجود بھی اگر زید کے پاس طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تو زید بریٴ الذمہ ہو گا، وبال صرف ہندہ پر ہو گا۔
3..ان شاء الله ماجور ہو گا بشرطیکہ اسے گناہوں سے روکتا رہے۔
4..زید نے چوں کہ یہ سارا معاملہ اپنے حق کے حصول کے لیے اور ہندہ کی اصلاح کی غرض سے کیا تھا اس لیے یہ اس ایذاء اور پردہ دری میں نہیں آئے گا جس پر وعید آئی ہے۔
5..عزیمت یہی ہے کہ اسے اپنے پاس رکھ کر شریعت کے مطابق میانہ روی کے ساتھ اصلاح کی کوشش کی جائے اور ساتھ ساتھ الله تعالیٰ سے خوب دعاؤں کا اہتمام کیا جائے، پھر بھی نباہ مشکل ہو جائے اور عورت غلط روش سے باز نہ آئے ، تو ایک طلاق دے کر اسے جدا کر دے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی