کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ: عورت پر اپنے شوہر کی خدمت کرنا ، کپڑے دھونا، کھانا پکانا، بدن دبانا ودیگر خانگی امور شرعاً واجب ہیں یا نہیں؟
زید کہتا ہے کہ یہ امور عورت پر دیانةً واجب ہیں قضاءً نہیں زید اپنے اس قول میں حق پر ہے یا غلطی پر؟ اگرحق پرہے تو دیانةً اور قضاءً سے کیا مراد ہے؟ نیز اگر عورت پر یہ امورواجب نہیں ہیں تو پھر عورت کی ذمے داریوں میں کیا کیا امور ہیں؟
مرد اور عورت پر ایک دوسرے کے کیا حقوق واجب ہیں؟ جن میں کوتاہی کی بنیاد پر یہ افراد عند الله مجرم ہوں گے ؟
براہ کر م تفصیلی جواب مرحمت فرما کر تشفی فرمائیں۔
اگر عورت کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ جہاں عورتیں گھریلو کام ( کھانا پکانا، کپڑے دھونا وغیرہ) خود نہیں کرتیں یا بیماری کی وجہ سے گھریلو کام کرنے سے عاجز ہیں تو اس صورت میں شوہر پر واجب ہے کہ وہ اس کے لیے پکا پکایا کھانا مہیا کرے، یا خادمہ رکھ لے جو تمام گھریلو کاموں کو سر انجام دے او راگر عورت کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ جہاں عورتیں گھریلو کام خود کرتی ہیں تو ایسی عورت پر اپنے شوہر کے لیے کھانا پکانا ، کپڑے دھونا، شوہر کی خدمت کرنا اور ضرورت ہو تو بدن دبانا دیانة واجب میں قضا ءً واجب نہیں۔
”
دیانةً“
کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان امور کو سر انجام دے گی تو الله تعالیٰ کی طرف سے اجر وثواب کی مستحق ہو گی ، لیکن اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا،”
قضاء“
کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان امور کو انجام نہ دے تو قاضی اپنے فیصلہ کے ذریعہ ان امور کی انجام دہی کو اس پر لازم نہیں کرسکتا۔
دوسرے لفظوں میں دیانةً اخلاقی فرض کو اور قضاءً قانونی فرض کو کہا جاتا ہے الغرض! عورت اخلاقی فرض پر عمل کرتے ہوئے گھریلو امور کو انجام دینے کے ساتھ ساتھ شوہر کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائے تاکہ میاں بیوی میں الفت ، محبت ہو او رگھریلو سکون برقرار رہ سکے ۔
خاوند او ربیوی کے ایک دوسرے پر بہت سے حقوق ہیں جن کا پورا کرنا شر عاً لازم ہے او ران میں کوتاہی کرنے والاعندالله مجرم ہے، چناں چہ شوہر کے ذمے بیو ی کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق نان نفقہ ،کپڑا اور رہائش کے علاوہ دیگر ضروری اخراجات ( مثلاً صابن، تیل، کنگھی وغیرہ) واجب ہیں اور بیوی کے ساتھ عدل وانصاف کرنا او راس کو اپنے محارم سے حسبِ ضرورت ملنے کی اجازت دینا بھی حق واجب ہے۔
بیوی کے ذمے شوہر کے حقوق واجبہ یہ ہیں کہ بیوی ہر جائز کام میں شوہر کی اطاعت کرے، شوہر کی اجازت یا مرضی کے بغیر اس کے گھر سے نہ نکلے ، اس کی اجازت کے بغیر اس کے مال سے کوئی چیز نہ لے او رنہ کسی کو کوئی چیز دے ، شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے مال ، بچوں کی اور اپنی عصمت کی حفاظت کرے او راگر شوہر ازدواجی تعلقات کے لیے بلائے تو شرعی مانع (حیض نفاس ، بیماری) کے بغیراس کا انکار نہ کرے اورشوہر کے سامنے زبان درازی نہ کرے ۔
حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا، صبر وشکر کے ساتھ نبھانا، خلاف طبع باتوں کو برداشت کرنا، عیب کی پردہ پوشی کرنا اور دلجوئی کرنا یہ حقوق مشترکہ ہیں جنہیں میاں بیوی میں سے ہر ایک کے ذمے پورا کرنا لازم ہے۔ فقط
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی