کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ہٰذا کے بارے میں کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو اس کی خدمات سے خوش ہو کر اپنا مملوکہ رہائشی مکان ہدیة دے دے، بایں صورت کہ زبان سے کہہ دے کہ میں نے یہ مکان تمہیں دے دیا اور رجسٹری بھی بیٹے کے نام کروا دی، لیکن عملی طور پر باپ بیٹا دونوں اسی مکان میں رہائش پذیر رہے، بالکلیہ طور پر مکان فارغ کرکے بیٹے کے تصرف میں نہیں دیا گیا۔
(الف) تو اس صورت میں محض رجسٹری بیٹے کے نام کروادینے سے بیٹا اس مکان کا مالک بن چکا یا نہیں؟ نیز! باپ کے مرنے کے بعد اس مکان میں بیٹے کے ساتھ اس کے دیگر ورثہ کا بھی شرعی حصہ ہو گا یا نہیں؟
(ب) بیٹے کو بینک سے قرض لینے کی ضرورت پیش آئی، اس کے لیے چوں کہ قرضہ لینے والے کا اپنا مکان ہونا ضروری ہوتاہے اور اس مکان کے کاغذات بینک میں گروی رکھنے پڑتے ہیں، اس لیے اس شخص نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر یہ پلاننگ کی کہ باپ نے اپنے مکان کی رجسٹری اپنے بیٹے کے نام کروا دی، ( لیکن عملی طور پر باپ بیٹا دونوں اسی مکان میں رہائش پذیر رہے،بالکلیہ طور پر مکان فارغ کرکے بیٹے کے تصرف میں نہیں دیا گیا) پھر بیٹے نے اس مکان کے کاغذات بینک میں گروی رکھ کر قرضہ لے لیا، اس صورت میں بیٹا اس مکان کا مالک شمار ہو گا یا نہیں؟
2..اب باپ کے فوت ہو جانے کے بعد بیٹا قرضہ ادا نہ کر سکا، حتی کہ عدالتی کارروائی کے بعد بینک اس مکان کامالک بن گیا، اس صورت میں کیا بیٹے کے ذمے دیگر ورثہ کو کچھ دینا لازم ہے یا نہیں؟ بینک سے قرضہ بیٹے نے اپنے لیے لیا تھا، باپ کے لیے نہیں۔
3..موجودہ دور میں جب کہ گھروں کے اندر سامان بکثرت ہوتا ہے، واہب کے لیے بوقت ہبہ اپنا تمام سامان نکالنا ممکن نہیں ہوتا،محض رجسٹری کروالی جاتی ہے اور واہب وموہوب اکٹھے رہائش پذیر رہتے ہیں۔ کیا اس موجودہ دور میں رجسٹری کروالینا جو کہ ایک مضبوط ترین قانونی کارروائی ہے، قبضہ کے قائم مقام نہیں بنے گا؟
واضح رہے کہ ہبہ(ہدیہ) کے تام ہونے کے لیے ضروری ہے کہ متعلقہ چیزمکمل طور پر اس شخص کے حوالے کی جائے جس کوہدیہ کی گئی ہے اور ہدیہ کرنے والے کا اس چیز سے کوئی تعلق ( تصرف یا منفعت) باقی نہ رہے، صورت مسئولہ میں چوں کہ ہدیہ کرنے والا بذات خود ہدیہ شدہ گھر میں تادم مرگ رہائش پذیر تھا، اس لیے محض نام کرانے سے یہ ہدیہ شرعا تام نہیں ہو ا ہے، لہٰذا باپ کے مرنے کے بعد متعلقہ مکان سب ورثاء کے درمیان مشترکہ ہے اور جس بیٹے کے نام محض رجسٹری ہوئی تھی وہ مالک نہیں بنا ہے۔
(ب) صرف کاغذات نام ہونے اور گروی رکھوانے سے متعلقہ مکان اس بیٹے کی ملک شمار نہیں ہو گا۔
2..صورت مسئولہ اگر حقیقت پر مبنی ہے اور بیٹے نے واقعتا بینک سے قرضہ اپنے لیے لیاتھا، تو اس صورت میں بینک کا قرضہ ادا کرنا اس کے ذمے خود واجب ہے اور مکان تمام ورثاء کا مشترکہ حق ہے، کیوں کہ ہبہ کی صورت میں ہبہ تام نہ ہونے کی وجہ سے متعلقہ مکان باپ کے فوت ہونے کے بعد شرعاً تمام ورثاء کا حق بن گیا اور رہن کی صورت میں چوں کہ بیٹے نے کاغذات اپنے قرضے کے عوض رکھوائے تھے اور پھر بینک نے مکان پر قبضہ کیا، تو چوں کہ متعلقہ بیٹے نے اپنے قرضے کا بدلہ دوسرے کے مال مرھون سے چکایا ہے؛ اس لیے اس پر مکان کی قیمت کا ضمان آئے گا۔
3..اس سوال کا جواب سوال نمبر (الف) کے جواب کے ضمن میں موجود ہے، باقی متبادل صورت یہ ممکن ہے کہ والد صاحب اپنا سازو سامان بیٹے کوعاریت کے طور پر دے دیں، پھر مکان ہبہ کر دیں یا ساز وسامان سمیت مکان ہبہ کر دیں، بشرطیکہ واہب کی اہلیہ ہبہ کے وقت متعلقہ مکان میں موجود نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی