موکل کا قبضہ سے قبل وکیل کو مبیع فروخت کرنا

Darul Ifta mix

موکل کا قبضہ سے قبل وکیل کو مبیع فروخت کرنا

سوال

 کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص دوکان سے اُدھار پر آٹا خریدتا ہے جو اس کو فی بوری1400/= روپے میں ملتی ہے، جب کہ یہی آٹا نقد میں فی بوری1200/= روپے کی ہے ، دوسرا شخص اس کو کہتا ہے کہ میں آپ کو نقد پیسہ دیتا ہوں آٹا خریدنے کے لیے، یا میں آپ کے لیے آٹا خریدتا ہوں، آپ دوکان سے اُدھار میں 1400/= روپے پر نہ خریدیں، بلکہ مجھ سے1300/= روپے میں خریدیں، اس طرح100/= روپے کی آپ کو بچت ہو گی اور100/= روپے منافع مجھے ملے گا۔

واضح رہے کہ اس شخص کا نہ آٹے کا کاروبار ہے اور نہ اس کے پاس آٹا موجود ہے۔

کیا اس طرح کی خرید وفروخت جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو جواز کی صورت کیا ہو گی؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر یہ شخص خود جاکر پہلے اپنے لیے بارہ سو روپے میں آٹا خریدتا ہے، پھر دوسرے شخص کو نئے سودے کے ساتھ تیرہ سو روپے میں فروخت کرتا ہے، تو یہ بیع درست ہے۔

البتہ اگر یہ شخص دوسرے شخص کو بارہ سو روپے دے کر آٹا خریدنے کے لیے بھیجتا ہے، تو اس صورت میں ضروری ہے کہ یہ شخص پہلے خود اس آٹے پر قبضہ کرے، اگر قبضہ کرنے سے پہلے فروخت کیا، تو بیع درست نہیں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی