کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آپ سے ایک مسئلے کے متعلق دریافت کرنا ہے کہ آج کل بعض سرکاری نوکریوں کے لئے میڈیکل ٹیسٹ کیا جاتا ہے،جس میں مطلوبہ شخص کو ننگا کرکے دیکھا جاتا ہے،یہاں تک کہ سوءتین(آگے پیچھے کی شرمگاہ) کو ہاتھ لگا کر بھی چیک کیا جاتاہے،تو کیا اس صورت میں نوکری کے لئے میڈیکل ٹیسٹ کروانا جائز ہے؟جبکہ اس کے بغیر نوکری نہیں مل سکتی۔
اگر ناجائز ہے، تو مطلق ناجائز ہے،یا ضرورت منداور غیرضرورت مندمیں فرق ہے؟
تنقیح:ضرورت سے مراد معاشی تنگی ہے،اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر دیندار طبقہ کے لوگ ان شعبوں میں نہیں جائیں گے،تو غیر دیندار طبقہ کے لوگ اس میں جائیں گے ،جس سے ملک اور اسلام کو نقصان ہوگا۔
صورت مسئولہ میں ایسی کوئی ضرورت شرعی نہیں ،جس میں ستر کو کھولا جائے،کیونکہ نہ اس پر مدار صحت ہے نہ زندگی ،کوئی اور بھی شرعی ضرورت اس پر موقوف نہیں ،نیز اس پر کچھ معیشت کا بھی مدار نہیں ،بغیر اس کے بہت بڑی مخلوق آسائش کے ساتھ موافق شرع زندگی بسر کرتی ہے،لہذااس طور پر میڈیکل ٹیسٹ کرانا ناجائز ہے،اور حکومت پر لازم ہے کہ اس ناجائز قانون کو ختم کرے۔
لما في تبيين الحقائق:
( وينظر الرجل إلى الرجل إلا العورة )...... ثم حكم العورة في الركبة أخف منه في الفخذ،وفي الفخذ أخف منه في السوأة حتى ينكر عليه في كشف الركبة برف، وفي الفخذ بعنف وفي السوأة بضرب إن لج .(كتاب الكراهية،فصل في النظر والمس،7/41،ط:دار الكتب العلمية بيروت).
وفي البحرالرائق:
وهي من تحت سرته إلى تحت ركبته)أي ما بينهما فالسرة ليست بعورة والركبة عورة........ وفي الظهيرية وحكم العورة في الركبة أخف منه في الفخذ حتى لو رأى رجل غيره مكشوف الركبة ينكر عليه برفق ولا ينازعه إن لج.وإن رآه مكشوف الفخذ ينكر عليه بعنف ولا يضر به إن لج. وإن رآه مكشوف السوأة أمره بستر العورة وأدبه على ذلك إن لج.(كتاب الصلاة،باب شروط الصلاة،1/469،ط:رشيدية)
وفي المسندامام احمدبن حنبل:
"عن عمران قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق".(6/59،ط:دار إحياء التراث بيروت)
. فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 174/118