کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بندہ15 سال سے ماڑی پور میں امامت کے فرائض بحمدالله انجام دے رہا ہے، ہماری مسجد میں مجھ سے پہلے اور میرے اب تک کے عرصہ امامت کے دوران مغرب کی جماعت اذانِ مغرب کے اس قدر وقفہ کے بعد شروع کی جاتی ہے کہ مؤذن اذان سے فارغ ہو کر لاؤڈ اسپیکر وغیرہ درست کر لیتا ہے ، اس میں منٹ، ڈیڑھ منٹ او رکبھی کبھار دو منٹ بھی ہو جاتے ہیں، اس قدر وقفہ کا ہو جانا تو معمول ہے، البتہ اس کا اعلان نہیں کیا جاتا، ابھی مسجد کے کچھ حضرات کا خیال ہے کہ جس طرح بعض مساجد میں مغرب کی اذان کے بعد تین چار منٹ کا وقفہ کر لیا جاتا ہے اور اس کے لیے مساجد میں باقاعدہ اعلانات لگائے گئے ہیں اور مغرب کی نماز کے لیے اذان کے بعد اتنی دیر تک امام مؤذن سب انتظار کرتے ہیں، یہ طریقہ یہاں بھی شروع کیا جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ:
1..مسجد میں جو طریقہ پہلے سے رائج ہے وہ افضل اور سنت کے مطابق ہے یا یہ نیا طریقہ؟
2..تین سے چار منٹ کا وقفہ اور اس کا باقاعدہ اعلان یہ جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ وقت داخل ہونے کے بعد، مغرب کی نماز میں جلدی کرنا، چاہے سردی ہو یا گرمی، مستحب اور اقرب الی السنة ہے، کیوں کہ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم مغرب کی نماز ادا فرما تے جس وقت سورج غروب ہو جاتا اور آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا، ایک اور حدیث میں منقول ہے کہ ” میری امت خیر پر رہے گی جب تک مغرب کی نماز میں تاخیر نہ کرنے لگے“ اور اسی کے پیش نظر حضرات فقہا ئے کرام نے بھی تین آیات کے بقدر اور جلسہ خفیفہ سے زائد تاخیر نہ کرنے کی تصریح کی ہے۔ لہٰذا پہلے سے رائج طریقے کو ہی برقرار رکھا جائے ، تین چار منٹ تاخیر کا ضابطہ بنانے اور باقاعدہ اس کا اعلان لگانے سے اجتناب کیا جائے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی