کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ گاڑی کی کمپنی والوں کے ہر شہر میں شوروم ہوتے ہیں، ان شوروموں پر ایجنٹ بٹھائے ہوتے ہیں، جس کو گاڑی لینی ہوتی ہے ،وہ اس ایجنٹ کے پاس رقم جمع کراتے ہیں،چار مہینوں بعد اس کو گاڑی مل جاتی ہے۔
اب ایک آدمی نے شوروم سے مذکورہ طریقے پر گاڑی بک کرائی، چار مہینے بعد شوروم والے نے اسے اطلاع کردی کہ آپ کی گاڑی آگئی ہے، وصول کرلیں، اس آدمی نے کہا کہ آپ یہ گاڑی میرے لئے موجودہ ریٹ پر آگے بیچ دیں، شوروم والے نے کہا کہ فی الوقت گاڑی 23 لاکھ روپے کی بکے گی، لیکن میں اس میں سے 50 ہزار روپے لوں گا، باقی ساڑھے بائیس لاکھ روپے آپ کو دوں گا، اس نے ہامی بھرلی کہ ٹھیک ہے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ معاملہ شرعا درست ہے یا نہیں؟ اس آدمی کا قبضہ کرنے سے پہلے ایجنٹ کو گاڑی بیچنے کا وکیل بنانا درست ہے؟ اگر یہ معاملہ شرعا درست نہیں تو اس کا کوئی جائز متبادل بتادیں۔
صورتِ مسئولہ میں مشتری کا قبضہ کرنے سے پہلے ایجنٹ کو گاڑی بیچنے کا وکیل بنانا درست نہیں ہے، اس کی جائز متبادل صورت یہ ہوسکتی ہے ، کہ مشتری خود وہاں جاکر اس گاڑی پر قبضہ کرے یا کسی کو وکیل بالقبض بنادے ، اور قبضے کے بعد ایجنٹ کو اس کے بیچنے کا وکیل بنادے۔
وفی الهندية:
وإذا عرفت المبيع والثمن فنقول من حكم المبيع إذا كان منقولا أن لا يجوز بيعه قبل القبض.... وما لا يجوز بيعه قبل القبض لا يجوز إجازته كذا في المحيط.(كتاب البيوع،3/16،ط:دارالفكر).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 174/209