کیا فرماتے ہیں علماء وفقہاء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جامع مسجد کے بہتر انتظام کے لیے امام وخطیب مسجد اورمنتظمہ کمیٹی کے حقوق اورذمہ داریوں کی تفصیلات شرعاً کیا کیا ہیں؟ الگ الگ کیا کیا دونوں کی حدود ہیں؟ یہ مسئلہ زیر بحث لانا اور معلوم کرنا انتظام کو بہتر طور سے مرتب کرنے کی غرض سے ہے مثلاً:
1.…مصلیٰ ،منبر ومحراب سے متعلق امور ،خاص کر مختلف مواقع پر بیانات کرنا یا کرانا، خاص کر رمضان کے عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں باہر سے علماء کو بلانا۔
2.…امام مسجد مسجد کا ملازم ہوتا ہے یا کمیٹی والوں کا؟ ملازمت کی نوعیت کیا ہے؟ کیا اس کے ساتھ عام ملازموں والا سلوک ہو گا؟
3.… کچھ لوگوں نے کچھ شرائط کے ساتھ سال دو سال کے لیے امام رکھا ہوتا ہے ،اس طرح امام رکھنا مناسب ہے؟
4.… مسجد کے انتظامی امور میں امام مسجد کو مداخلت کا حق ہے یا نہیں؟ جیسا کہ عام نمازی کو یہ حق ہے۔
5.… بحیثیت مجموعی امام فائق ہے یا منتظمہ کمیٹی؟
6.… بد انتظامی یا عدم توجہ سے نظام میں خامی، یا مالی نقصان وضیاع سے متعلق امام بریٴ الذمہ ہو گا یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
آپ حضرات تفصیلاً مسئلہ کی وضاحت فرمائیں کہ تشنگی نہ رہے۔ جزاکم الله احسن الجزاء
دنیا کا انتظام قائم رکھنے کے لیے الله تعالیٰ نے ہر جگہ بعض لوگوں پر حقوق کی پاسداری لازم کی ہے، تو جامع مسجد کے بہتر انتظام کے لیے امام اور منتظمہ کمیٹی درج ذیل اپنے انفرادی اور اجتماعی حقوق کا خیال رکھیں، تاکہ نظام کو بہتر سے بہتر طور پرچلایا جاسکے:
1.…مصلیٰ اور منبر ومحراب سے متعلق امور کو بجالانا امام وخطیب کی ذمہ داری ہے، اسی طرح مختلف مواقع پر وعظ ونصیحت اور بیانات کرنا اور کرانا بھی امام صاحب کا حق ہے۔
2.…امام مسجد نہ مسجد کا ملازم ہوتا ہے اور نہ ہی کمیٹی والوں کا، بلکہ ان کو ملازم کہنا امامت جیسے عظیم منصب کی علوّشان کے خلاف ہے۔
3.… جائز ہے، لیکن اس سے امام صاحب کی تحقیر مقصود نہ ہو۔
4.… خلاف شرع امور پر امام صاحب کا اہل محلہ کو متوجہ کرنا ضروری ہے، باقی انتظامی امور میں امام مسجد منتظمہ کمیٹی کا رکن ہو، تو مثل دوسرے افراد کمیٹی کے اس کو اس قدر حق حاصل ہو گا، جس قدر منتظمہ کمیٹی کے دوسرے فرد کو حاصل ہو، ورنہ نہیں۔
5.… امام فائق ہے۔
6.… امام مسجد منتظمہ کمیٹی کا رکن ہو، تو عدم توجہ سے نظام میں خامی یا مالی نقصان ہونے سے امام صاحب بریٴ الذمہ نہیں ہے، او ررکن نہ ہونے کی صورت میں اہل محلہ کو نظام میں خامی او رنقصان کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 156/343