کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنے ایک دوست کے لیے زمین خریدی، خریدنے کے بعد اس پر ٹیوب ویل لگایا گیا، تاکہ اس سے زمین سیراب ہو، جب سارا سسٹم مکمل ہو گیا تو میں نے اپنے د وست کو مسیج کیا اور فون پر رابطہ ہوا، تو میں نے ان سے کہا کہ سسٹم مکمل ہوگیا ہے، سب سے پہلے شرعی اعتبار سے میرے عمل کی حیثیت متعین ہونی چاہیے، انہوں نے کہا کہ نہیں ،پہلے کام کرو، جب اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ کیا آمدن اور اخراجات ہیں، تو اس کے بعد آپس میں کچھ طے کرتے ہیں، ورنہ سوالات پیدا ہوتے ہیں، چوں کہ وہ مجھ سے بڑے تھے ان کا احترام تھا، اس لیے میں نے اخلاقاً زور نہیں دیا۔
بہرحال کام شروع کیا، اخراجات میرے دوست کرتے رہے تقریباً ڈھائی، تین سال لگ بھگ کام کیا، اس کے بعد ا نہوں نے کہا کہ میں زمین کو فروخت کرنا چاہتا ہوں، نہ ہماری حیثیت متعین ہوئی اور نہ ہمیں کچھ معاوضہ ملا، نیز ڈھائی تین سال ان کی زمین سنبھالی اس اعتبار سے کہ ہر موسم اور سیزن کے اعتبار سے اس میں کاشت کروانا، فصل کو پانی دلوانا، کٹائی کروانا اور فصل کی خرید وفروخت کے سارے معاملات کی نگرانی کرنا او راسی زمین پر پانی کا ٹیوب ویل جو کہ سولر کا بنا ہوا ہے ، اس کی رات کی سیکورٹی کرنا، تاکہ فصل اور ٹیوب ویل کے سامان کو چوری وغیرہ دیگر نقصانات سے بچایا جاسکے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے اس نگرانی کے عمل، جو کہ ڈھائی، تین سال پر محیط ہے ، اس پر ہمیں کوئی معاوضہ نہیں ملا، جب کہ اس ڈھائی تین سال کے بعد بالآخر ہمارے او ران کے درمیان، ہمارے عمل کا چوتھائی حصہ مقرر ہوا جو کہ دیا جارہا ہے، کیا شرعی اعتبار سے اس ڈھائی، تین سال کی نگرانی کے عمل کے معاوضہ کا مطالبہ کرنا درست ہے یا نہیں؟
اگر درست ہے تو معاوضہ کی تعیین کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟
صورت مسئولہ میں مذکورہ عقد فاسدہے،اور مزارعت فاسدہ کا حکم یہ ہے کہ کسان اجر مثل کا حق دار ہوتا ہے، لہٰذا آپ اجر مثل کے حق دار ہیں ( یعنی آپ کے ہاں ایسے کام کی جو اجرت عام طور پر لوگوں کے درمیان طے ہوتی ہو، اس کے آپ مستحق ہیں )، اس معاملہ کو ختم کرنا لازم ہے او راگر دوبارہ یہ معاملہ کرنا ہو، تو شریعت کے مطابق عقد کرکے فی صدی لحاظ سے اپنے عمل کا معاوضہ عمل سے پہلے طے کریں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی