کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ” مذاق ” اور” مزاح ” کسے کہتے ہیں؟ شرعاً ،ذاق کرنا کیسا ہے؟ اس کے حدود کیا ہیں؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاق ثابت ہے؟ ارشادِ نبوی ” لاتمار أخاك ،ولا تمازحه، ولاتعده موعدا فتخلفه ” سے مذاق کی ممانعت معلوم ہوتی ہے، اس کی کیا توجیہ ہوگی؟
احادیث مبارکہ اور حضرات محدثین و فقہائے کرام کی عبارات کی روشنی میں مدلل و مفصل جواب تحریر کریں۔
۱۔ مزاح کا معنی ٰ ہے: دل لگی، ہنسی اور اردو زبان میں لفظ مذاق اس معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور شرعاً مزاح کہا جاتا ہے اپنے گھر والوں اور اپنے متعلقین کے ساتھ ایسے بے تکلفی ، خوش دلی اور دلداری کے ساتھ پیش آناجس میں شرعی حدود کی رعایت ہو۔
۲۔ شرعاً مذاق کرناچند شرائط کے ساتھ درست ہےجو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
جھوٹ نہ ہو ، ایذاء نہ ہو ، افراط نہ ہو ، ( مذاق کو اپنا مشغلہ نہ بنائے) شریعت کے خلاف نہ ہو ، وقار کے خلاف نہ ہو ۔
۳۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے مذاق کرنا ثابت ہے اور ممانعت بھی وارد ہوئی ہے، چنانچہ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے دونوں روایتوں میں اس طرح تطبیق فرمائی ہے، کہ مزاح کی کثرت جو باعث قساوتِ قلب ہو ، یا اللہ جل شانہُ کے ذکر و فکر سے رکنے کا سبب ہو ، یا ایذاء مسلم کا سبب ہو ، یا متانت کے خلاف ہو یہ سب ممانعت میں داخل ہیں اور جو ان سے خالی ہو محض دوسرے کی دلداری کا سبب ہو ، وہ مستحب ہے۔
لما في المرقاة :
المزاح بضم الميم ويكسر ..... ثم المزاح إنبساط مع الغير من غير إيذاء فإن بلغ الإيذاء يكون سخرية. (كتاب الأدب،باب المزاح، 8617،رشيدية)
وفي الموسوعة الفقهية:
المزاح بالضّمّ في اللغة : اسم من مزح يمزح , والمزح : الدعابة , والمزاح - بالكسر - مصدر مازحه , وهما متمازحان .
وفي الاصطلاح : المُزاح بالضّمّ المباسطة إلى الغير على وجه التّلطف والاستعطاف دون أذيّة .
لا بأس بالمزاح إذا راعى المازح فيه الحقّ وتحرّى الصّدق فيما يقوله في مزاحه , وتحاشى عن فحش القول , وقد روى ابن عمر رضي اللّه عنهما : أنّ النّبيّ صلّى اللّه عليه وسلّم قال : « إنّي لأمزح ولا أقول إلّا حقّاً » .
قال البركوي والخادمي : شرط جواز المزاح قولاً أو فعلاً أن لا يكون فيه كذب ولا روع مسلم وإلّا فيحرم .
(3743: مكتبه علوم اسلامية)
۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 170/12