1..کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ گڑیوں کے جواز پر اماں عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا گڑیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی، جب پیغمبر صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا تو حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے ان گڑیوں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے ساتھ تشبیہ دی، بعض لوگ مذکورہ حدیث کو دلیل بنا کر گڑیوں کے جواز کے قائل ہیں، تو برائے مہربانی مذکورہ حدیث میں جو تلاویلات ہیں اور اس کا جو مطلب ہے اس کوو اضح فرمائیں۔
2..جس کمرے میں گڑیاں یا تصاویر ہوں ذی روح چیزوں کی تو کیا وہاں پر نماز فاسد ہوتی ہے، یعنی نماز واجب الاعادہ ہے؟
واضح رہے کہ تصویر کی طرح ذی روح کا مجسمہ بنانا بھی شرعاً ناجائز ہے، اور چوں کہ آج کل کی مروجہ گڑیاں بھی بالکل مجسمہ کی مانند ہوتی ہیں، لہٰذا ان کا استعمال شرعاً درست نہیں، جہاں تک تعلق ہے اس حدیث کا جس میں آیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے پاس گڑیاں ہوتی تھیں اور وہ ان سے کھیلتی تھیں، تو اس کے متعلق بعض محدثین نے یہ فرمایاہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے ،جب تصویروں کے بارے میں حرمت نہیں آئی تھی اور بعض محدثین یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنہا کو جن گڑیوں کے متعلق رخصت دی گئی تھی وہ مکمل تصویریں نہ تھیں، لہٰذا اس حدیث سے آج کل کی مروجہ گڑیوں کے استعمال کے جواز پر استدلال درست نہیں۔
2..اگر کمرے میں اتنی بڑی تصویر یا مجسمہ ہو جو نمایاں نظر آتا ہو اور وہ نماز پڑھنے والے کے آگے، دائیں، بائیں، پیچھے یا اوپر کی طرف ہو تو اس کمرے میں نماز پڑھنا مکروہ ہے او راسی طرح اگر تصویر فرش پر اس جگہ ہو جہاں سجدہ کیا جاتا ہو تو یہ بھی مکروہ ہے، البتہ اگر تصویر اتنی چھوٹی ہو کہ وہ اگر زمین پر رکھی ہو اور کوئی متوسط بینائی والا آدمی کھڑا ہو کر دیکھے تو تصویر کے اعضاء کی تفصیل دکھائی نہ دے یا تصویر بڑی ہو لیکن فرش پر سجدہ کی جگہ میں نہ ہو تو اس صورت میں اس جگہ بلاکراہت نماز درست ہے، اور آج کل کی مروجہ گڑیاں بھی چوں کہ بالکل تصویر کی مانند ہوتی ہیں، لہٰذا ان کا بھی وہی حکم ہے جو تصویر کا ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی