کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ ایک مدرسے کا سفیر ہے، مدرسہ والوں نے اس شرط پر بندہ کو چندہ حاصل کرنے کے لیے رکھا ہے کہ جو آمدنی ہو ( چندہ میں سے ) ایک تہائی بندہ کا ،دو تہائی مدرسے کا ہوگا۔
کیا یہ معاملہ کرنا درست ہے ؟ اگر درست نہیں تو متبادل جائز صورت سے آگاہ فرمائیں ۔ شکریہ
مذکورہ معاملہ درست نہیں ، اس کی جائز اور متبادل صورت یہ ہے کہ مدرسہ والے آپ کے لیے ماہانہ یا روزانہ کے حساب سےمعیّن تنخواہ مقرر کردیں ۔
لما في التنوير مع الدر:
(هي) لغة: اسم للأجرة....وشرعا:(تمليك نفع بعوض )وشرطها: كون الاجرة والمنفعة معلومتين لان جهالتهما تفضي إلى المنازعة. (كتاب الإجارة:9/9،5،رشيدية)
وفي المحيط البرهاني:
وأما بيان شرائطها :فنقول يجب أن تكون الأجرة معلومة، والعمل إن وردت الإجارة على العمل، والمنفعة إن وردت الإجارة على المنفعة، وهذا لأن الأجرة معقود به والعمل أو المنفعة معقود عليه، وإعلام المعقود به وإعلام المعقود عليه شرط تحرزا عن المنازعة.(كتاب الإجارة،الفصل الأول في بيان الألفاظ التي تنعقد الإجارة:11/217،إدارة القرآن)
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:170/287