کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کو سفر سے واپسی میں راستے میں نماز کا ٹائم ہو جاتا ہے اور زید کو یہ شبہ ہو جاتا ہے کہ گھر پہنچتے پہنچتے نماز کا وقت نکل جائے گا، بہتر یہ ہے کہ گاڑی میں ہی نماز پڑھ لوں یہ سوچ کر وہ گاڑی کے اندر ہی نماز کی نیت باندھ لیتا ہے اور پوری نماز پڑھ لیتا ہے جب کہ زید کو قبلہ کی سمت کا معلوم نہیں تھا اس وجہ سے وہ جس طرف رُخ کرکے بیٹھا تھا اسی حالت میں ہی نماز پڑھی اب سوال یہ ہے کہ:
1..ایسی صورت میں نماز پڑھنی چاہیے یا نہیں؟
2..زید کی نماز ہو گئی یا وہ اس نماز کو لوٹا دے؟
3..ایسی صورت میں عورت کے لیے کیا حکم ہے ؟
قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل بتا کر مشکور فرمائیں عین نوازش ہو گی۔
ڈرائیور سے پہلے ہی یہ بات کر لی جائے کہ فرض نماز کے لیے گاڑی روکے گا، ورنہ بروقت مطالبہ کیا جائے، پوری کوشش کے باوجود اگر وہ گاڑی روکنے کو تیار نہ ہو اور منزل تک پہنچنے میں نماز قضا ہو جانے کا قوی اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں اپنی سیٹ پر بیٹھے اشارہ سے بحالتِ مجبوری جس قدرقبلہ رخ ہونا ممکن ہو نماز پڑھ لے، وقتی طور پر اس طرح پڑھے، البتہ نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں۔
بعد میں نماز کا لوٹانا لازم ہے۔
عورت کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ اگر مرد حضرات گاڑی نہ رکوائیں تو یہ بیٹھے بیٹھے وقتی طور پر اشارہ سے نماز پڑھ لے اور بعد میں لوٹا دے۔فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی