کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی یہ وصیت کرتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے مال کااتنا حصہ فلاں جگہ پر خرچ کیا جائے،کیامرحوم کی اس وصیت پر عمل کرناضروری ہے؟اس میں کوئی تفصیل ہوتو وہ بھی بتادیں،جزاک اللہ خیرا ۔
واضح رہے کہ کسی کی وصیت مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ معتبر ہوتی ہے:
۱) وصیت کرنے والا عاقل بالغ ہو۔
۲) جائز کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت ہو، ناجائز کاموں کی وصیت پر عمل کرنا جائز نہیں اور نہ ہی ایسی وصیت کااعتبار ہے۔
۳) اپنے وارث کیلئے وصیت نہ کی ہو،کیونکہ وارث کے لئے وصیت کا اعتبار نہیں۔
۴) تجہیز وتکفین کا خرچہ اوراگر میت پر قرض ہوتواس کی ادائیگی کے بعد باقی بچ جانے والے ترکہ کی کم از کم ایک تہائی سے وصیت کو پورا کرنا واجب ہے ، البتہ اگر تمام ورثاء عاقل،بالغ ہوں اور باہم رضا مندی اوردلی خوشی کے ساتھ مرحوم کی خواہش کے مطابق یہ رقم خرچ کرنا چاہیں تو درست ہے ،اور یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان شمارہوگا ،شرعا ان پر لازم و ضروری نہیں ۔
۵) جس مصرف میں خرچ کرنے کی وصیت کی گئی اسی جگہ رقم لگائی جائے،اس کی خلاف ورزی کرکے دوسری جگہ خرچ کرناجائز نہیں۔
وفي سنن النسائي:
"عن عمرو ابن خارجة رضي الله عنه قال: خطب رسول الله صلی الله علیه وسلم فقال: "إن الله أعطی کل ذي حق حقه، ولا وصية لوارث"۔
(الوصایا، باب إبطال الوصية لوارث، ص: ۷۱۳، رقم الحدیث: 3449، ط: دارالسلام بیروت)
وفي الهندية:
"لاتجوز ما زاد علی الثلث إلا أن یجیزہ الورثة بعد موته وهم کبار...ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن یجیزہ الورثة"۔ (کتاب الوصایا، الباب الأول، 4/104، دار الفکر، بیروت)
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 169/85