کیا فرماتے مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض علاقوں میں دو فریقین کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوتا ہے، پھر راضی نامہ یا صلح میں لڑکیاں جرمانے کے طور پر دوسرے فریق کو دیتے ہیں
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے نکاح کے باب میں لڑکی کی خوشی اور اس کی دلی رضا مندی کو پیش نظر رکھنے کا حکم فرمایا ہے اوراولیاء کو ترغیب دی ہے کہ وہ لڑکی کا عقد نکاح وہاں کریں جہاں وہ ہنسی خوشی زندگی گزار سکے۔
لیکن عقد نکاح میں کلیدی کردار اجازت کا ہے، اگر لڑکی اجازت دے دیتی ہے اگرچہ وہ گھر والوں اور خاندان والوں کے دباؤ کی وجہ سے کیوں نہ ہو اور اگرچہ وہ دل سے اس پر خوش نہ ہو، تو نکاح منعقد ہو جائے گا،اوراگر اجازت نہ دے تو نکاح منعقد نہ ہو گا۔
صورت مسئولہ میں چوں کہ لڑکی اجازت دے دیتی ہے تو نکاح منعقد ہو جائے گا، اگرچہ اولیاء پر اس طرح مجبور کرنے کا گناہ ہو گا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی