کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے کہ ایک بالغہ عاقلہ بچی کارشتہ والدین نے ایک صالح جوان کے ساتھ طے کیا، لڑکا ایک کمپنی میں ملازمت کرتا ہے، اس کا ماہانہ وظیفہ اتنا ہے کہ گھر کا کرایہ اور بل وغیرہ اور نان ونفقہ کے خرچہ کی ادائیگی کرسکتا ہے، بچی کی شرط ہے کہ میں شادی اس شرط پر کروں گی کہ پہلے اپنا ذاتی گھر خریدے، کیا بچی کا یہ شرط لگانا درست ہے؟
بلاشبہ شریعت مطہرہ نے نکاح کے بعد خاوند کے ذمہ اس بات کو لازم کیا ہے کہ وہ بیوی کے لیے نان ونفقہ کا بندسبت کرے، لیکن اس کے ساتھ شریعت نے ان چیزوں کے بندوبست کرنے میں خاوند کی مالی حیثیت کا اعتبار بھی کیا ہے، جیسے قرآن کریم میں واضح ارشاد ہے : ﴿لِیُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِہِ ط وَمَن قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ فَلْیُنفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللَّہُ لَا یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاہَا﴾
․(سورة الطلاق، الآیة:7)
ترجمہ:”کہ خرچ کرنے والا اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جس کی مالی حالت تنگ ہو وہ اس ہی میں سے خرچ کرے جتنا الله نے اس کو دیا ہے، الله کسی کو مکلف نہیں بناتے مگر اسی کا جتنا الله نے اس کو دیا ہے۔“
تو خاوند شرعی طور پر اپنی مالی حیثیت کے مطابق ان چیزوں کے بندوبست کرنے کا مکلف ہے، لہٰذا مذکور صورت میں اگر لڑکے کی مالی حیثیت اتنی ہے کہ وہ گھر کے کرایہ، بجلی وغیرہ کا بل اور نان ونفقہ وغیرہ دینے پر قادر ہے، تو لڑکی کا اس سے ذاتی مکان کا مطالبہ کرنا اس صورت میں شرعی طور پر ایک ناجائز مطالبہ ہے اور اس کے ساتھ صرف اسی بناء پر ایک دین دار رشتہ کو ٹھکرانا غیر مناسب عمل ہے، حالاں کہ احادیث میں ایسے رشتہ کو ترجیح دینے کی ترغیب دی گئی ہے اور رد کرنے کو ناپسند کیا گیا ہے۔۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی