کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مندرجہ ذیل مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ جب کوئی شخص فوت ہو جاتا ہے تو اس کی اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں موجود ہوتے ہیں لیکن وراثت کی تقسیم صرف اور صرف لڑکوں میں کرتے ہیں اور لڑکیوں سے نہ پوچھتے ہیں اورنہ اس کے حصے کی زمین کی قیمت دیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو بھائیوں کے لیے زمینہبہ کرنے میں پر مجبور کرتے ہیں ۔ لہٰذا اس سلسلے میں کئی امور غور طلب ہیں:
1…وراثت کا سارا عمل چوں کہ اضطراری ہے اس لیے ہر ایک بھائی کے ساتھ ہر بہن شریک اور حصہ دار ہو گی یا نہیں؟
2…کیا اس صورت میں ہر ایک بھائی اپنے حصے کا شرعی مالک بن سکتا ہے؟
3…کیا شریعت محمدی کی رُوسے ہر بھائی جس کے ساتھ بہنوں کا حصہ ہے اپنوں اپنے حصوں میں تصّرف کر سکتا ہے یا یہ غاصب تصور ہو گا؟۔
4…اگر بہن معاف کر دیتی ہے ہر ایک بھائی کو یعنی اپنا حصہ ہبہ کر دیتی ہے تو کیا یہ ہبة المشاع نہ ہو گا؟ تو یہ کیسے ہبہ تصور ہو گا؟ بڑی وضاحت کی طلب ہے
جواب سے پہلے بطور تمہید چند باتوں کا جاننا ضروری ہے۔
1…واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے جس طرح اصل ترکہ میں مذکر ورثاء (لڑکوں) کے حصص مقرر کیے ہیں ، اسی طرح مؤنث ورثاء (لڑکیوں) کے بھی حصے بیان کیے ہیں۔
2…پھر میراث کی تقسیم میں لوگوں کی لغزشوں اورکوتاہیوں کی وجہ سے رب ذوالجلال نے اپنے پاک کلام میں میراث کے اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ جزئیات تک بیان فرما دیں اور اس کے لیے ایک قانون اور ضابطہ مقرر کیا۔
3…میراث کو شرعی اصول وضوابط کے مطابق تقسیم نہ کرنے والے کے متعلق قرآن وحدیث میں سخت سے سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں اور ان حدود پر گامزن نہ رہنے والوں کو جہنم کے دائمی عذاب سے متنبہ کیا ہے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ایسے شخص کے متعلق بیان فرمایا ”جس نے اپنے وارث کا حق مارا، قیامت کے روز الله تعالیٰ اس کو جنت سے ، اس کے حصہ سے محروم کر دیں گے “ اور آپ نے فرمایا کہ ” جس شخص نے کسی کی زمین سے ظلماً ایک بالشت جگہ لی تو اس کو قیامت کے روز سات زمینوں کا طوق پہنا یا جائے گا۔“
4…وارثت میں سے اپنی بہنوں کو محروم کرنا زمانہ جاہلیت کی بُری رسم ہے ، جوکہ شریعت سے متصادم ہے، اس کا ترک ہمارے ذمہ فرض اور ضروری ہے ۔
مندرجہ بالا تمہید کے بعد صورت مسئولہ کا جواب یہ ہے کہ آپ کے علاقے میں میراث کی تقسیم کا مروجہ طریقہ ( میراث میں سے لڑکیوں کو چھوڑ کر لڑکوں کو دینا) دوسروں کی حق تلفی اور الله کے احکامات سے کھلم کھلا بغاوت ہے ، جو کہ ناجائزو مذموم ہے۔
4،1 ….حق میراث ایک لازمی او رجبری حق ہے ، جو ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا ، لہٰذا ان کا اپنا حق معاف کرنے کے باوجود بھی بھائی بری الذمہ نہ ہوں گے او رمیراث میں لڑکیوں کا حق بدستور باقی رہے گا اوراسی طرح اپنا حق ہبہ کرنا بھی شرعاً شرائط ہبہ کے نہ پائے جانے کی وجہ سے غیر معتبر ہے۔
3،2 .… صورت مسئولہ میں ہر بھائی اپنے حصہ کا تو شرعی مالک بن جائے گا ، البتہ بہنوں کے حصہ میں تصر ف کرنے کی وجہ سے غاصب شمار ہو گا۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی