لفظ آزاد صریح کے لیے متعارف ہے ،یا بائن کے لیے؟، اس سے طلاق صریح بائن ہوگی ،یا صریح رجعی؟کیا ایک جگہ کا عرف دوسری جگہ والوں کے لیے حجت و دلیل بن سکتا ہے ،یا نہیں ؟

Darul Ifta mix

لفظ آزاد  صریح کے لیے متعارف ہے ،یا بائن کے لیے؟، اس سے طلاق صریح بائن ہوگی ،یا صریح رجعی؟کیا ایک جگہ کا عرف دوسری جگہ والوں کے لیے حجت و دلیل بن سکتا ہے ،یا نہیں ؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ

۱۔  لفظ آزاد  آج کل ہمارے عرف میں طلاق صریح کے لیے متعارف ہے یا بائن کے لیے؟

۲۔ اگر یہ لفظ طلاق صریح کے لیے متعارف ہے تو اس سے طلاق صریح بائن ہوگی یا صریح رجعی؟

۳۔ کوئی لفظ کسی قوم کے عرف میں یا کسی خطہ ارض پر کسی خاص معنی میں متعارف ہوتو کیا وہ کسی دوسری قوم ،یا دوسری جگہ کے رہنے والوبھی حجت اور دلیل بن سکتا ہے؟

جواب

         ۱۔    اکابرحضرات جمہور رحمہم اللہ کی تصریح کے مطابق لفظ‘‘آزاد’’ طلاق صریح کے لیے متعارف ہے،کیونکہ ہمارے عرف میں یہ لفظ کثرت استعمال کی وجہ سے بمنزلہ صریح کے شمار کیا جاتا ہے،جیساکہ اکابر کے فتاویٰ میں مذکور ہے۔(دیکھئےکفایت المفتی:8/166،فتاویٰ حقانیہ:4/479،امداد الأحکام:5/166،فتاویٰ محمودیہ:12/352، امداد الفتاویٰ:5/256،فتاویٰ مفتی محمودؒ:5/73-74،فتاویٰ عباد الرحمٰن:3/515)

۲۔  مذکورہ لفظ”   ا ٓزاد”سے طلاق صریح رجعی واقع ہوگی، ممکن ہے کہ ان الفاظ کا اعتبار کر کے ظاہر پر محمول کرتے ہوئے ہمارے بعض اکابرین حضرات نے طلاق صریح بائن کا فتویٰ جاری فرمادیا ہے، تاہم صریح رجعی کا قول معمول بہ ہے۔

۳۔جب کوئی لفظ کسی ایک علاقے یا قوم میں عرفاً کسی معنی میں استعمال ہورہا ہو، تو کسی دوسری قوم یا دوسری جگہ کے رہنے والوں کے لیے حجت ودلیل نہیں بن سکتا،کیونکہ وہ لفظ اس معنی میں اُسی علاقے اور قوم کے ساتھ خاص ہے، کسی دوسری جگہ کے لیے نہیں ،البتہ اگر یہی لفظ اسی معنیٰ میں دیگر علاقوں اور قوموںمیں بھی معروف ومشہور ہو، تووہاں بھی یہی احکام لاگو  ہوں گے۔

لمافي الشامي:

فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح، فإذا قال رها كردم أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لانه غلب في عرف الناس استعماله في الطلاق، وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت .(کتاب الطلاق،باب الکنایات:4/519،ط:رشیدية).

وفي البحر:

قوله:( سرحتك فارقتك ) .قلنا المعتبر تعارفهما في العرف العـام في الطــــلاق لاستعـمالها شرعــا مـــــــرادا هو بهماكذافي فتح القــدير.(کتاب الطلاق،باب الکنایات في الطلاق:3/325،ط:دار المعرفة) .

وفي الرد مع الدر:

وألفاظه صريح وملحق به وكنايةقوله:(وملحق به)أي من حيث عدم احتياجه إلى النية كلفظ التحريم أو من حيث وقوع الرجعي به.(کتاب الطلاق،مطلب:طلاق الدور،4/419،ط:رشیدية).

وفي البحر:

ومشايخ خوارزم من المتقدمين ومن المتأخرين كانوا يفتون بأن لفظ التسريح بمنزلة الصريح يقع به طلاق رجعي بدون النية كذا في المجتبی.(کتاب الطلاق، باب الکنایات في الطلاق:3/524،ط:رشیدية).

وفي حاشية الطحطاوي:

قوله:(لغلبة العرف) هذا جواب سؤال حاصله إذا وقع الطلاق به بلانية ینبغي أن یکون کالصریح فیکون الواقع به رجعیا.(کتاب الطلاق،2/184،ط:دارالمعرفة).

وفي أصول الإفتاء وآدابه:

وکذلک یعتبر اللفظي في کلام الناس،فإن کان عرفاً عاماً، یثبت به حکم یعم البلاد کلها،وإن کان عرفاً خاصاً، یقتصر الحکم به في المواضع التي جری فيها ذلک العرف، ولایثبت به حکم عامٌ في جمیع البلاد.

قال السرخسي رحمه الله:والحاصل أنه یعتبر في کل موضع عرفُ أهل ذلک الموضع فیما یطلقون عليه من الإسم..وهذا مثل قول الزوج للزوجة:‘‘سرحتک’’فانه في الأصل کناية لایقع به الطلاق إلا بالنية،ولکن جری العرف في کثیر من البلاد علی أنه لایقال ذلک إلا للطلاق،فجعله الفقهاء صریحاً لایحتاج إلی النية،فإن کان هناک موضع لم یجرفيه هذا العرف، یبق الحکم علی أصله أنه کناية.

(الفصل السادس،الوجه الثاني:تغیر الحکم بتغیر العرف، ص:298،299، ط:معارف القرآن) فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر:171/88,90