کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل جو دُکاندار قسطوں پر سامان فروخت کرتے ہیں جیسے : موبائل فون،استری ،واشنگ مشین،ٹی وی وغیرہ قسطوں پر دیتے ہیں،تو اس کے بارے میں بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ سود ہے اور بعض کہتے ہیں ،اس میں سود نہیں ہے ،کیا ان دکانداروں سے یہ سامان خرید سکتے ہیں، یا نہیں ؟راہنمائی فرمائیں ۔
واضح رہے کہ قسطوں کا کاروبار مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے :
(۱) سودے کا نقد یا ادھار ہونا متعین کیا جائےکہ معاملہ نقد کیا جارہا ہے ، یا ادھار ۔
(۲) قسطوں کی رقم اور مدت بھی متعین کی جائے۔
(۳) قسط کی ادائیگی میں تاخیر پر کوئی جرمانہ نہ لگایا جائے ،جرمانہ لگانے کی صورت میں مذکوہ معاملہ جائز نہیں ہوگا ۔
باقی قسطوں میں ادھار بیچنے کی وجہ سے قیمت بڑھانا جائز ہے ۔
لما في شرح المجلة:
يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط أي أنه يلزم أن يكون الأجل معلوم الوقت عند كلا العاقدين لأن الجهالة تفضي إلى النزاع فيفسد البيع به.(كتاب البيوع،الفصل الثاني في بيان المسائل المتعلقة بالنسيئة والتاجيل ،1125،دارالكتب)
وفي المبسوط للسرخسي:
وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم وأتما العقد عليه فهو جائز لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد.(كتاب البيوع،باب البيوع الفاسدة،78،حبيبة)۔
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر:170/196