کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے موسی سے اپنے کام کے لیے دس لاکھ روپے لیے ہیں، (میں مرغی فارم کا مالک ہوں) اس رقم سے میں سامان، مثلاً: چوزہ، دانہ، دوائی، راشن، پانی وغیرہ لیتا ہوں اور جگہ بھی میری ذاتی ملکیت ہے، اس رقم کو میں اس طرح کام پر لگاتا ہوں کہ مجھے سو بوری دانہ کی ضرورت ہو تو انہی پیسوں سے خریدتا ہوں اور فی بوری دانہ پر موسی کو ڈیڑھ سو روپیہ دیتا ہوں، جب دو ماہ میں ہمارا مال بک جائے تو ہم اس کو اسی حساب سے، مثلاً :پانچ سو بوری دانہ پر 75000 روپے دیتے ہیں، اور موسی ہمارے نفع ونقصان میں شریک نہیں، بلکہ جب بھی وہ اپنے دس لاکھ روپوں کا تقاضا کرے مجھے دینے پڑیں گے، کیا یہ صورت جائز ہے؟ اگر نہیں تو متبادل جواز کا طریقہ کیا ہے؟
سوال میں مذکورہ معاملہ ( موسی کا آپ کو اشیائے ضروریہ خریدنے کے لیے رقم دینا) قرض ہے اور فی بوری پر ڈیڑھ سو روپے لینا قرض پر زیادتی ہے جو کہ صریح سود اور حرام ہے، لہٰذا اس معاملے کو جلد از جلد ختم کرنا ضروری ہے، جائز متبادل صورتیں یہ ہو سکتی ہیں:
1..دونوں آپس میں مضاربت کا معاملہ کر لیں ،جس کی صورت یہ ہے کہ پیسے ایک کے اور کام دوسرے کا ہو اور جس قدر نفع ہو گا اس میں دونوں شریک ہوں گے ، نفع کا تناسب فیصد کے اعتبار سے طے کیا جائے، مثلاً :ایک کو نفع کا چالیس فیصد، دوسرے کو ساٹھ فیصد وغیرہ ، البتہ کسی کے لیے متعین رقم طے کرنا کہ فلاں کو اتنے ملیں گے، درست نہیں ہے ،اسی طرح نقصان میں بھی دونوں شریک ہوں گے، پہلے نقصان کو نفع سے پورا کیا جائے گا اگر اس سے پورا نہ ہو تو پھر اصل سرمایہ سے پورا کیا جائے گا اور مضارب (کام کرنے والا) اس نقصان کا ذمے دار نہ ہو گا۔
2..یا مشارکت کا معاملہ کر لیں، جس میں سرمایہ دونوں طرف سے ہو، نفع کا تناسب فیصد کے اعتبار سے طے کیا جائے اور نقصان ہر شریک پر اس کے سرمایہ کے تناسب سے ہو گا، مضاربت ومشارکت کے اور بھی شرائط ومسائل ہیں جو بوقت ضرورت کسی عالم دین سے پوچھے جاسکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی