کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم غلہ منڈی میں خریدوفروخت اس طرح کرتے ہیں کہ فون پر دوسرے شہر، مثلاً: جھنگ سے 300 بوری گندم خریدتے ہیں ،پھر قبضہ کیے بغیر راولپنڈی کے تاجر کوبیچ دیتے ہیں ، شرعاً اس بیع قبل القبض کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ جیسا کہ بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ بلانیتِ ثواب کے اس کا نفع صدقہ کردینا چاہیے، شرعاً اس سے حاصل ہونے والے نفع کا کیا حکم ہے ؟ اسی طرز پر 18 ماہ کام کیا، اس منافع کا کیا کریں؟
واضح رہے کہ کسی چیز کو قبضہ میں لانے سے پہلے نہ آگے فروخت کرنا جائز ہے اور نہ ہی اس سے حاصل شدہ منافع کا استعمال جائز ہے، بلکہ اس کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خود قبضہ کرے، یا کسی وکیل سے قبضہ کراکر پھر آگے فروخت کرے۔
صورتِ مسئولہ میں قبضہ سے پہلے جو سودے ہوتے ہیں ، وہ ناجائز ہیں، حدیث شریف میں اس کی ممانعت آئی ہے، لہٰذا بائع اور مشتری دونوں پر لازم ہے کہ ایسی بیع کو ختم کر دیں اور اس سے حاصل شدہ منافع ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کر دیں اور آئندہ اس طرح کی خرید وفروخت سے مکمل اجتناب کریں، تاکہ مشکلات کا سامنا نہ ہو ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی